ناروے، اسپین ، آئرلینڈ نے فلسطین کو ریاست تسلیم کرلیا

تینوں یورپی ممالک کا خیال ہے کہ اقدام دیگر ممالک کو بھی فلسطینی ریاست تسلیم کرنے کیلئے راغب کرے گا
اپ ڈیٹ 28 مئ 2024

ناروے ، اسپین اور آئرلینڈ نے منگل کے روز فلسطینی ریاست کو باضابطہ طور پر تسلیم کرلیا ہے۔اسرائیل نے تینوں ممالک کی جانب سے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے فیصلے کو حماس کیلئے انعام قرار دیتے ہوئے اس پر شدید تنقید کی تھی، یہ اعلان ایک ایسے موقع پر سامنے آیا ہے جب غزہ کی تباہ کن جنگ میں سات ماہ سے زائد کا عرصہ بیت چکا ہے۔

تینوں یورپی ممالک کا خیال ہے کہ ان کا یہ اقدام علامتی طور پر مؤثر رہے گا اور دیگر ممالک کو بھی فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کیلئے راغب کرے گا۔

اوسلو کی جانب سے تسلیم کے اعلان کے بعد وزیر خارجہ ایسپین بارتھ ایدے نے اس اقدام کو ناروے اور فلسطین میں تعلقات کے لیے ایک خاص دن قرار دیا۔

انہوں نے مزید کہا کہ ناروے 30 سال سے زیادہ عرصے سے پرجوش طریقے سے فلسطینی ریاست کا دفاع کرتا رہا ہے۔

ناروے کے اعلان کے فورا ً بعد اسپین نے بھی فلسطینی ریاست تسلیم کرنے کا اعلان کیا، حکومتی ترجمان پیلر الیگریا نے تصدیق کی کہ کابینہ نے فلسطینی ریاست کو باضابطہ طور پر تسلیم کر لیا ہے، اور اسے ”تاریخی دن“ قرار دیا۔

اس سے قبل ہسپانوی وزیر اعظم پیڈرو سانچیز نے کہا تھا کہ فلسطین کو ریاست تسلیم کرنا امن کے لیے ”بنیادی ضرورت“ ہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہا کہ یہ اقدم کسی بھی ملک کیخلاف نہیں، کم ازکم اسرائیکل کیخلاف تو بالکل نہیں ہے، یہ مستقبل میں فلسطینی ریاست کے اپنے پڑوسی ملک اسرائیل کیخلاف پر امن اور سلامتی کے ساتھ رہنے کا واحد طریقہ کار ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ یہ فیصلہ اسپین کی طرف سے حماس کو یکسر مسترد کرنے کی عکاسی کرتا ہے جو دو ریاستی حل کے خلاف ہے اور جو 7 اکتوبر کے حملے غزہ جنگ کا باعث بنے تھے۔

آئرلینڈ نے بھی فلسطینی ریاست کو تسلیم کیا اور اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو پر زور دیتے ہوئے کہا کہ وہ دنیا کی بات سنیں اور غزہ میں جو انسانی تباہی ہم دیکھ رہے ہیں اسے روکیں۔

آئرش وزیر اعظم سائمن ہیرس نے کابینہ اجلاس میں اس اقدام پر دستخط کرنے کے فوراً بعد اپنے بیان میں کہا کہ آئرلینڈ کا یہ فیصلہ امید کو زندہ رکھنے کے بارے میں ہے۔

اپنی کابینہ کے اجلاس سے پہلے آئرلینڈ کے وزیر اعظم سائمن ہیرس نے کہا کہ یہ ایک اہم لمحہ تھا جس سے عندیہ ملا کہ دو ریاستی حل کی امید کو زندہ رکھنے میں مدد کے لیے آپ ایک ملک کے طور پر عملی اقدامات کر سکتے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ ہم امن عمل کے اختتام پر فلسطین کو تسلیم کرنا چاہتے تھے تاہم ہم نے اسپین اور ناروے کے ساتھ مل کر امن کے ”معجزے“ کو زندہ رکھنے کے لیے یہ اقدام کیا ہے۔

اپنے اعلان میں ڈبلن نے کہا کہ وہ فلسطین کو ایک خودمختار اور آزاد ریاست کے طور پر تسلیم کر رہا ہے اور مکمل سفارتی تعلقات قائم کرنے پر رضامند ہو گیا ہے۔

بیان میں مزید کہا گیا کہ فلسطینی اتھارٹی کے ہیڈ کوارٹر رام اللہ میں آئرلینڈ کے باضابطہ سفارت خانے کے ساتھ ایک آئرش سفیر کا تقرر کیا جائے گا۔

’نسل کشی پر اکسانا‘

یہ منصوبہ گذشتہ ہفتے تینوں ممالک کے وزرائے اعظم سامنے لائے تھے جس پر اسرائیل نے سخت ردعمل کا اظہار کیا تھا اور سفارتی تناؤ کا بھی سبب خاص طور پر اسرائیل اور اسپین میں سفارتی تعلقات بگاڑنے کا سبب بنا تھا۔

پچھلے ہفتے سانچیز کی انتہائی بائیں بازو کی نائب یولینڈا ڈیاز نے اس اقدام کو سراہتے ہوئے کہا تھا ”ہم روک نہیں سکتے، فلسطین دریا سے سمندر تک آزاد ہو جائے گا“۔ میڈرڈ میں اسرائیلی سفیر نے اس بیان کو مسترد کرتے ہوئے اسے اسرائیل کے خاتمے کا واضح مطالبہ قرار دیا تھا۔

یولینڈا ڈیاز کے اس نعرے سے مراد فلسطین کی برطانوی مینڈیٹ سرحدیں ہیں، جو 1948 میں اسرائیل کے بننے سے پہلے دریائے اردن سے بحیرہ روم تک پھیلی ہوئی تھیں۔

منگل کو اسرائیلی وزیر خارجہ اسرائیل کاٹز اس سے بھی آگے بڑھ گئے۔

انہوں نے ایکس پر ہسپانوی وزیر اعظم کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا کہ سانچیز جب تک آپ اپنے نائب کو برطرف نہیں کرتے اور آپ ایک فلسطینی ریاست کو تسلیم کرتے ہیں تو آپ یہودیوں کے خلاف نسل کشی اور جنگی جرائم کے ارتکاب کے لیے اکسانے کے عمل حصہ لے رہے ہیں۔

اتوار کو انہوں نے 7 اکتوبر کے حملوں اور ہسپانوی روایتی رقص کی 2 تصاویر جوڑ کر پوسٹ کرتے ہوئے کہا کہ سانچیز حماس آپ سے اظہار تشکر کرتے ہیں۔

اسپین نے اس پوسٹ کی مذمت کرتے ہوئے اسے بیہودہ اور نفرت انگیز قرار دیا ہے۔

پیر کے روز کاٹز نے مقبوضہ بیت المقدس میں موجود ہسپانوی قونصلیٹ کو مقبوضہ مغربی کنارے میں فلسطینیوں کو قونصلر خدمات کی پیشکش بند کرنے کا حکم دیکر انتقامی کارروائی کا بھی آغاز کردیا ہے۔

یورپی یونین کے اندر اختلافات

فلسطینی ریاست کو تسلیم کیے جانے کے معاملے نے 27 ممالک پر مشتمل یورپی یونین کے اندر شدید اختلاف کو ہوا دی ہے۔

کئی دہائیوں سے فلسطینی ریاست کو باضابطہ طور پر تسلیم کرنے کو اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کے درمیان امن مذاکرات کے خاتمے کے طور پر دیکھا جاتا رہا ہے۔

واشنگٹن اور بیشتر مغربی یورپی ممالک نے کہا ہے کہ وہ ایک دن فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے لیے تیار ہیں، لیکن مقبوضہ بیت المقدس کی حیثیت اور حتمی سرحدوں جیسے حل طلب مسائل پر معاہدہ ضروری ہے۔

غزہ کی خونریزی نے فلسطینیوں کو آزاد ریاست ریاست دینے کے مطالبات کو زندہ کر دیا ہے۔

منگل کے اس اقدام کا مطلب ہے کہ اقوام متحدہ کے 193 رکن ممالک میں سے 145 اب فلسطینی ریاست کو تسلیم کر رہے ہیں۔

سویڈن 2014 فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے والا پہلا یورپی ملک بنا تھا۔

اس نے بلاک میں شامل ہونے سے پہلے یہ اعلان کرنے والے چھ ممالک بلغاریہ، قبرص، جمہوریہ چیک، ہنگری، پولینڈ اور رومانیہ کی پیروی کی تھی۔

7 اکتوبر کو حماس کے جنگجوؤں نے جنوبی اسرائیل پر دھاوا بول دیا تھا جس میں 1,170 سے زائد افراد ہلاک ہوئے جن میں بیشتر عام شہری بتائے گئے تھے۔

حماس نے 252 یہودیوں کو یرغمالی بھی بنایا تھا جن میں سے 121 غزہ میں باقی ہیں۔ اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ 37 یر غمالی ہلاک ہوچکے ہیں۔

غزہ کی وزارت صحت کے مطابق اسرائیل کی مسلسل جارحیت سے غزہ میں 36,000 سے زائد افراد شہید ہوچکے ہیں جن میں بیشتر عام شہری ہیں۔

Read Comments