ابراہیم رئیسی کی تدفین کے بعد ایران کی توجہ صدر کے انتخاب پر مرکوز

ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کے انتقال پر سوگ منانے کے بعد قوم کی توجہ اگلے ماہ ان کے جانشین کے انتخابات پر مرکوز ہو گئی...
28 مئ 2024

ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کے انتقال پر سوگ منانے کے بعد قوم کی توجہ اگلے ماہ ان کے جانشین کے انتخابات پر مرکوز ہو گئی ہے جب کہ سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای سابقہ ایرانی صدر جیسے وفادار کی تلاش میں ہیں ۔

28 جون کو قبل از وقت ووٹنگ سے قبل تمام سیاسی جماعتوں کے امیدواروں کی کے لئے میدان اوپن ہوگیا ۔ ان کے لیے سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ اسلامی جمہوریہ میں جانچ پڑتال کے عمل میں کتنے امیدوار بچ پائیں گے۔

صدر رئیسی، جن کے پاس اپنی پہلی مدت میں ایک سال سے زیادہ کا عرصہ باقی تھا، 19 مئی کو اپنے وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان اور چھ دیگر افراد کے ساتھ اس وقت جاں بحق ہو گئے تھے جب ان کا ہیلی کاپٹرشدید میں پہاڑوں پر گر کر تباہ ہو گیا تھا۔

ابراہیم رئیسی کا جسد خاکی مشہد پہنچنے پر لاکھوں شہری سڑکوں پر نکلے اور جنازے کے ساتھ مارچ کرتے ہوئے سابق صدر کو جذباتی انداز میں الوداع کہا، جبکہ مختلف علاقوں میں تعزینی جلوس بھی نکالے گئے۔

آئندہ انتخابات ایسے وقت میں ہوں گے جب غزہ جنگ میں ایران کے روایتی دشمن اسرائیل اور تہران کے حمایت یافتہ فلسطینی عسکریت پسند گروپ حماس کے درمیان شدید لڑائی جاری ہے،اس کے ساتھ ایران کے جوہری پروگرام پر سفارتی تناؤ بھی جاری ہے ۔

امریکہ کی جانب سے 2015 کے تاریخی جوہری معاہدے سے دستبرداری کے بعد دوبارہ عائد کی جانے والی سخت بین الاقوامی پابندیوں اور بڑے پیمانے پر حکومت مخالف مظاہروں کے نتیجے میں ایران کو مسلسل معاشی مشکلات کا بھی سامنا ہے۔

خامنہ ای نے رئیسی کے نائب صدر 68 سالہ محمد مخبر کو آئندہ چند ہفتوں کے لیے عبوری ذمہ داریاں سنبھالنے اور جون میں ہونے والے انتخابات کے انعقاد کی ذمہ داری سونپی ہے۔

میڈیا رپورٹس سے پتہ چلتا ہے کہ مخبر خود انتخاب لڑنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

سابق جوہری مذاکرات کار سعید جلیلی پہلے لوگوں میں سے ایک تھے جنہوں نے اپنی امیدواری کا اعلان کیا تھا۔

دیگر امیدواروں میں سابق وزیر خارجہ محمد جواد ظریف اور علی لاریجانی شامل ہیں جو پارلیمنٹ میں اسپیکر کی حیثیت سے خدمات انجام دے چکے ہیں۔

سابق صدر محمود احمدی نژاد نے اب تک رائے دہندگان کو قیاس آرائیوں میں رکھا ہے اور کہا ہے کہ وہ رجسٹریشن کا فیصلہ کرنے کے لئے شرائط کا جائزہ لے رہے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ ہمیں ملک میں مثبت پیش رفت کا انتظار کرنا ہوگا۔

جانچ پڑتال کا عمل

واضح رہے کہ سال 2022 کے اواخر میں ایران میں خواتین کے لیے سخت ڈریس کوڈ کی مبینہ خلاف ورزی پر 22 سالہ ایرانی کرد خاتون ماہسا امینی کی حراست میں ہلاکت کے بعد ملک بھر میں مظاہروں کا سلسلہ جاری تھا۔

درجنوں سکیورٹی اہلکاروں سمیت سیکڑوں افراد ہلاک اور ہزاروں کو گرفتار کیا گیا۔

سیاسی امور کے ماہر عباس عبدی نے اخبار حمیحان کو بتایا کہ اگر ایران کی احتجاجی برادری کو تبدیلی کا موقع نظر آتا ہے تو وہ انتخابات میں حصہ لے کر ذمہ داری کا مظاہرہ کرے گا۔

انہوں نے کہا کہ انہیں یقین ہے کہ اصلاح پسند بڑے فرق سے جیتیں گے، لیکن صرف اس صورت میں جب انہیں حصہ لینے کی اجازت دی جائے گی - حالیہ انتخابات سے قبل بہت سے امیدواروں کو نااہل قرار دیے جانے کے بعد بڑی تشویش پائی جاتی ہے

عبدی نے مزید کہا کہ اگر حکام اس بار وسیع پیمانے پر امیدواروں کو انتخاب لڑنے کی اجازت دیتے ہیں، تو “اس سے لوگوں میں ضرور امید پیدا ہوگی۔

ایران کے انتخابی عمل کے تحت امیدواروں کے پاس باضابطہ طور پر رجسٹریشن کے لیے کئی دن ہوں گے جس کا آغاز 30 مئی سے ہوگا۔

تاہم حتمی فہرست کا انحصار 3 جون کی رجسٹریشن ڈیڈ لائن کے بعد قدامت پسند اکثریتی گارڈین کونسل کی جانب سے توثیق کے عمل کے نتائج پر ہوگا۔

انتخابات کی نگرانی کرنے والی 12 رکنی تنظیم نے اس سے قبل کئی امیدواروں پر پابندی عائد کی تھی جن میں احمدی نژاد اور لاریجانی بھی شامل ہیں۔

ایران میں یکم مارچ کو ہونے والے پارلیمانی انتخابات سے قبل گارڈین کونسل نے ہزاروں امیدواروں کو نااہل قرار دے دیا تھا۔ ان میں سے بہت سے اصلاح پسند اور اعتدال پسند تھے، جانچ پڑتال نے ایران کے قدامت پسند سیاست دانوں کو اقتدار پر اپنی گرفت مضبوط کرنے میں مؤثر طریقے سے مدد کی۔

مارچ میں ہونے والے انتخابات میں 1979 کے بعد سب سے کم ٹرن آؤٹ دیکھا گیا۔

رائے دہندگان کی تعداد میں کمی

سال 2021 کے انتخابات جس نے ابراہیم رئیسی صدارت کے منصب پر فائر ہوئے تھے ، میں بہت سے اصلاح پسند اور اعتدال پسند شخصیات کو دوڑ سے نااہل قرار دیا گیا جس سے ایران میں کسی بھی صدارتی انتخابات میں ٹرن آؤٹ ریکارڈ کم ہو گیا۔

اپنے عہدے کے دوران صدر رئیسی کو سابق عہدیداروں اور کارکنوں کی جانب سے تنقید کا سامنا کرنا پڑا ۔

بڑھتی مہنگائی، بے روزگاری اور کرنسی کی قدر میں ریکارڈ کمی نے رئیسی کی صدارت کو متاثر کیا جبکہ ان کی حکومت جوہری معاہدے کو بحال کرنے اور پابندیوں کو اٹھانے کے لئے واشنگٹن کے ساتھ کوئی معاہدہ کرنے میں بھی ناکام رہی۔

22 سالہ ایرانی کرد خاتون ماہسا امینی کی موت کے بعد سڑکوں پر ہونے والے احتجاجی مظاہروں سے نمٹنے کے حکومتی طریقہ کار پر بھی انہیں تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔

حال ہی میں غزہ جنگ کے نتیجے میں اسرائیل کے ساتھ کشیدگی عروج پر پہنچ گئی اور اپریل کے وسط میں اس وقت عروج پر پہنچ گئی جب ایران نے اسرائیل کے خلاف اپنا پہلا براہ راست حملہ کیا۔

ایرانی افواج اور اتحادی گروپوں نے سیکڑوں ڈرون اور میزائل داغے جن میں سے بیشتر کو اسرائیل اور اس کے اتحادیوں نے ناکام بنا دیا۔

ان تمام افراتفری کے درمیان، ایران کے رہنماؤں نے پرامن انتخابی عمل پر زور دیا ہے۔

پیر کو نئی پارلیمنٹ کا پہلا اجلاس خامنہ ای کے ایک پیغام کے ساتھ شروع ہوا جس میں اراکین پر زور دیا گیا تھا کہ وہ بے کار میڈیا مقابلوں اور نقصان دہ سیاسی تنازعات سے دور رہیں۔

Read Comments