عالمی عدالتی احکامات کے باوجود رفح میں اسرائیل کی جارحیت جاری

25 مئ 2024

عالمی عدالت انصاف کی جانب سے غزہ کے جنوبی شہر میں فوجی کارروائیاں روکنے کے حکم کے باوجود ہفتہ کو اسرائیل نے رفح سمیت غزہ کے مختلف علاقوں میں بمباری شروع کردی۔

عالمی عدالت نے 24 مئی کو رفح میں جنگ روکنے کا حکم دیتے ہوئے حماس کی قید میں موجود تمام افراد کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا تھا۔ عدالتی فیصلے کے چند گھنٹوں بعد ہی اسرائیل نے اعلان کیا تھا کہ فوجیوں نے شمالی غزہ سے مزید 3 یرغمالیوں کی لاشیں برآمد کرلی ہیں۔

عدالت نے اسرائیل کو مصر اور غزہ کے درمیان رفح کراسنگ کو بھی کھلا رکھنے کا حکم دیا جسے اس نے رواں ماہ کے اوائل میں شہر پر میں حملے کے آغاز پر بند کر دیا تھا۔

اسرائیل نے اس بات کا کوئی اشارہ نہیں دیا کہ وہ رفح میں اپنا راستہ تبدیل کرنے کی تیاری کر رہا ہے تاہم اس نے اس بات پر اصرار کیا کہ عدالت نے اسے غلط سمجھا ہے۔

اسرائیل کی وزارت خارجہ کے ترجمان کے ساتھ ایک مشترکہ بیان میں قومی سلامتی کے مشیر تزاچی حنگبی نے کہا کہ اسرائیل نے رفح کے علاقے میں ایسی فوجی کارروائیاں نہیں کی ہیں اور نہ ہی کرے گی جس سے ایسے حالات پیدا ہوں جو فلسطینی شہری آبادی کی مکمل یا جزوی تباہی کا سبب بن سکتے ہیں۔

حماس نے رفح کے بارے میں عالمی عدالتئ انصاف کے فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے لیکن جنگ زدہ غزہ کے باقی حصوں کو حکم نامے سے خارج کرنے کے فیصلے کو تنقید کا نشانہ بنایا۔

یہاں کچھ نہیں بچا

عالمی عدالت کے فیصلے کے چند گھنٹوں بعد اسرائیل نے ہفتے کی علی الصبح غزہ کی پٹی پر حملے کیے جبکہ اسرائیلی فوج اور حماس کے درمیان جھڑپیں جاری رہیں۔

فلسطینی عینی شاہدین اور اے ایف پی کی ٹیموں نے رفح اور وسطی شہر دیر البلاح میں اسرائیلی حملوں کی اطلاع دی ہے۔

غزہ شہر سے جنگ کی وجہ سے دیر البلاہ میں بے گھر ہونے والی فلسطینی خاتون اوم محمد العشکہ نے کہا کہ “ہمیں امید ہے کہ عدالت کے فیصلے سے اسرائیل پر قتل عام کی اس جنگ کو ختم کرنے کے لیے دباؤ پڑے گا، کیونکہ یہاں کچھ بھی نہیں بچا ہے۔

محمد صالح نے وسطی غزہ پٹی میں اے ایف پی سے کہا کہ اسرائیل ایک ایسی ریاست ہے جو خود کو قانون سے بالاتر سمجھتی ہے۔

بین الاقوامی عدالت انصاف نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ اسرائیل کو فوری طور پر اپنی فوجی کارروائی اور رفح گورنریٹ میں کسی بھی دوسری کارروائی کو روکنا چاہیے جس سے غزہ میں فلسطینی گروپ کو ایسے حالات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے جو اس کی مکمل یا جزوی طور پر جسمانی تباہی کا باعث بن سکتے ہیں۔

اس نے اسرائیل کو انسانی امداد کے لئے رفح کراسنگ کھولنے کا حکم دیا اور غزہ میں حماس کے زیر حراست یرغمالیوں کی ”فوری اور غیر مشروط رہائی“ کا بھی مطالبہ کیا۔

غزہ کی وزارت صحت کے مطابق اسرائیلی جارحیت کے نتیجے میں غزہ میں کم از کم 35 ہزار 800 افراد شہید ہو چکے ہیں جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے شامل ہیں۔

اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ جن تین یرغمالیوں کی لاشیں جمعہ کے روز شمالی غزہ سے برآمد ہوئی ہیں، ان میں اسرائیلی یرغمالی چنان یابلونکا، برازیل نژاد اسرائیلی مائیکل نیسن بام اور فرانسیسی نژاد میکسیکن اورین اورینڈز راڈوکس شامل ہیں جنہیں 7 اکتوبر کو ہونے والے حملے کے دوران قتل کیا گیا تھا اور ان کی لاشوں کو غزہ لے جایا گیا تھا۔

پیرس اجلاس

عدالت کا یہ حکم ایسے وقت میں سامنے آیا جب پیرس میں غزہ تنازع پر ایک طرف سی آئی اے کے سربراہ اور اسرائیلی نمائندوں کے درمیان الگ الگ ملاقاتیں ہو رہی ہیں اور دوسری طرف فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون اور چار اہم عرب ریاستوں کے وزرائے خارجہ کے درمیان ملاقاتیں ہو رہی ہیں۔

امریکہ، مصر اور قطر کے ثالثوں پر مشتمل جنگ بندی مذاکرات اسرائیل کی جانب سے رفح آپریشن شروع کرنے کے فورا بعد ختم ہو گئے تھے، تاہم وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کے دفتر نے اس ہفتے کہا تھا کہ جنگی کابینہ نے اسرائیلی وفد سے کہا ہے کہ وہ یرغمالیوں کی واپسی کے لیے مذاکرات جاری رکھے۔

سی آئی اے کے سربراہ بل برنز کے پیرس میں اسرائیلی نمائندوں سے ملاقات متوقع ہے تاکہ مذاکرات دوبارہ شروع کیے جا سکیں۔

قاہرہ کے مطابق فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون نے جمعہ کے روز قطر کے وزیر اعظم اور سعودی، مصر اور اردن کے وزرائے خارجہ سے ملاقات کی اور جنگ بندی پر زور دیا۔

فرانسیسی صدر نے کہا کہ انہوں نے غزہ جنگ اور اسرائیل کے ساتھ مل کر فلسطینی ریاست کے قیام کے طریقوں پر بات چیت کی۔

بیان میں مزید کہا گیا کہ پانچ ممالک نے دو ریاستی حل کے موثر نفاذ پر تبادلہ خیال کیا۔

ڈراؤنے خواب کو ختم کرو

مئی کے اوائل میں اسرائیلی افواج نے عالمی مخالفت کو نظر انداز کرتے ہوئے رفح میں داخل ہونا شروع کیا تھا۔

فوجیوں نے مصر کے ساتھ رفح سرحد ی گزرگاہ کے فلسطینی حصے پر قبضہ کر لیا جس سے غزہ کے 2.4 ملین افراد کے لیے امداد کی ترسیل مزید سست ہو گئی۔

وائٹ ہاؤس کا کہنا ہے کہ جمعے کے روز مصر کے صدر عبدالفتاح السیسی نے اپنے امریکی ہم منصب جو بائیڈن کے ساتھ ٹیلی فون پر بات چیت کے دوران اس بات پر اتفاق کیا تھا کہ جنوبی غزہ میں داخلے کے دوسرے راستے کے ذریعے اقوام متحدہ کی امداد کی اجازت دی جائے گی۔

امریکی فوج نے غزہ کے ساحل پر سمندر ی راستے سے امداد حاصل کرنے کے لیے ایک عارضی جیٹی بھی قائم کی ہے جس کے بارے میں اقوام متحدہ کے ترجمان کا کہنا ہے کہ ایک ہفتہ قبل 97 ٹرک امداد پہنچائی گئی تھی۔

اقوام متحدہ کے مطابق علاقے میں سلامتی اور انسانی صورتحال بدستور تشویش ناک ہے، قحط، اسپتالوں کی خدمات معطل ہونے اور تقریبا آٹھ لاکھ افراد گزشتہ دو ہفتوں میں رفح سے نقل مکانی کر چکے ہیں۔

اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے سربراہ مارٹن گریفتھس نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر لکھا کہ امدادی کارکنوں اور اقوام متحدہ کے عملے کو اپنے کام کو محفوظ طریقے سے انجام دینے کے قابل ہونا چاہیے۔

ایک ایسے وقت میں جب غزہ کے لوگ قحط کا شکار ہیں… گزشتہ سات ماہ کے دوران کی جانے والی کالوں پر دھیان دینا پہلے سے کہیں زیادہ اہم ہے: یرغمالیوں کو رہا کرنا۔ جنگ بندی پر اتفاق کریں۔ اس ڈراؤنے خواب کو ختم کرو۔’’

Read Comments