آکسفورڈ یونیورسٹی میں اسرائیلی جارحیت کیخلاف احتجاج پر 16 طلبہ گرفتار

24 مئ 2024

برطانیہ کی آکسفورڈ یونیورسٹی میں فلسطینی کے حامی طلبہ گروپ کی جانب سے احتجاجی مظاہرے میں پولیس نے 16 افراد کو گرفتار کرلیا ہے۔ غزہ جنگ سے متعلق آکسفورڈ جیسے بڑے تعلیمی ادارے میں احتجاج کی یہ تازہ ترین لہر ہے۔

ٹیمز ویلی پولیس نے کہا کہ جمعرات کو ان افراد کو غیر قانونی طور پر داخلے کے شبے میں گرفتار کیا گیا ہے جبکہ ایک شخص کو“ عام حملے“ کے شبہ میں بھی گرفتار کیا گیا ہے۔

یہ واقعہ حالیہ ہفتوں میں عالمی شہرت یافتہ آکسفورڈ اور کیمبرج سمیت برطانیہ کی ایک درجن سے زیادہ یونیورسٹیوں میں مظاہروں کے بعد سامنے آیا ہے جس کا مقصد امریکہ اور دیگر جگہوں پر کیمپس میں اس طرح کے مظاہروں کی صف میں شامل ہونا ہے۔

غزہ میں اسرائیلی جارحیت کیخلاف اس احتجاج کے دوران طلبہ نے یونیورسٹی سے اسرائیل کے ساتھ تعلیمی اور مالی تعلقات ختم کرنے سمیت مختلف مطالبات کیے ہیں۔

آکسفورڈ میں جمعرات کی صبح طلباء کی یونیورسٹی کی انتظامی عمارت میں داخل ہونے کے بعد یہ گرفتاریاں عمل میں آئیں۔ طلبہ کا کہنا تھا کہ انہوں نے منتظمین کے ساتھ بات چیت کے تمام راستے ختم کردیے ہیں۔

آکسفورڈ ایکشن فار فلسطین (او اے 4 پی) کے احتجاجی گروپ کے ترجمان نے کہا کہ اپنے طالب علموں کے ساتھ بات چیت میں مشغول ہونے کے بجائے وائس چانسلر نے عمارت کو خالی کرنے اسے بند کرنے اور گرفتاریوں کیلئے پولیس بلانے کا انتخاب کیا۔

انہوں نے کہا کہ ہم انتظامیہ سے فوری طور پر مذاکرات کا مطالبہ کرتے ہیں۔

سوشل میڈیا پر پوسٹ کی گئی ویڈیوز میں دیکھا جاسکتا ہے کہ پولیس وین کے سامنے بیٹھے لوگوں کو پولیس گھسیٹتے ہوئے لے جارہی ہے۔ اس موقع پر مظاہرین نے پولیس کیخلاف شرم کرو کے نعرے بھی لگائے۔

آکسفورڈ یونیورسٹی نے ایک بیان میں کہا ہے کہ مظاہرین پرامن احتجاج سے ”آگے“ چلے گئے تھے جس کا نتیجہ یونیورسٹی کے کچھ دفاتر میں جبری داخلے اور عارضی قبضہ نکلا۔

بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ گروپ نے اپنے احتجاج کو بنیادی طور پر پرامن رہنے دینے کے بجائے براہ راست کارروائی کے ہتکھنڈوں تک بڑھا دیا ہے جس سے کمیونٹی کے اراکین، بشمول یہودی طلباء اور عملے کے لیے ”سخت خوفناک ماحول“ پیدا ہوا۔

یونیورسٹی کی یونین، جو ماہرین تعلیم، لیکچررز اور عملے کی نمائندگی کرتی ہے، نے پرامن احتجاج میں مصروف طلبہ کو پرتشدد طریقے سے گرفتار کرنے کے لیے پولیس لانے کی مذمت کی ہے۔

Read Comments