اسرائیل اور امارات میں تجارتی سرگرمیاں ماند پڑنے لگیں

08 مئ 2024

غزہ میں اسرائیلی جارحیت نے متحدہ عرب امارات کے ساتھ کاروباری سرگرمیوں میں جوش و جذبہ کم کردیا ہے۔ ایک وقت میں ان تعلقات پر خوشیاں منائی جارہی تھیں تاہم اب اسرائیلی افواج کی طرف سے جاری جارحیت پر عرب دنیا میں بڑھتے غصے اور عوامی جائزے کے سبب یہ محدود ہورہے ہیں۔

متحدہ عرب امارات 30 سالوں میں سب سے نمایاں عرب ریاست بن کر ابھری ہے جس نے 2020 میں امریکہ کی ثالثی میں ہونے والے معاہدے کے تحت اسرائیل کے ساتھ باضابطہ تعلقات قائم کیے جسے ابراہم معاہدے کا نام دیا گیا ہے۔ امارات نے 6 ماہ سے زائد تک جاری رہنے والی جارحیت کے باوجود اسرائیل کے ساتھ تعلقات برقرار رکھے ہیں۔

معاہدوں کے نتیجے میں اسرائیلی کاروباری افراد نے تل ابیب سے براہ راست پروازوں کے ذریعے خلیجی ریاست میں آنا شروع کیا، نئے کاروباری تعلقات قائم کیے اور موجودہ تعلقات کو وسعت دی جو کبھی خفیہ رکھے گئے تھے۔ جنگ سے پہلے اعلان کردہ معاہدوں میں سائبر سیکیورٹی، فنٹیک، توانائی اور ایگری ٹیک میں سرمایہ کاری شامل تھی۔

دس اسرائیلی حکام، ایگزیکٹوز اور کاروباری افراد نے رائٹرز کو بتایا کہ بااثر خلیجی ریاست کے ساتھ کاروباری تعلقات برقرار ہیں لیکن اس نشاندہی پر کہ اسرائیلی جارحیت نے کس طرح کاروباری جوش و جذبے کو کم کردیا ہے انہوں نے کسی بھی حالیہ معاہدے پر بات کرنے سے انکار کیا۔

امارات میں موجود جرمن نژاد یہودی کاروباری شخصیت رافیل ناگل نے کہا کہ کاروبار ہورہا ہے تاہم اس میں کمی ہورہی ہے اور یہ آپ کے سامنے ہی ہے۔ رافیل ناگل امارات میں ایک نجی گروپ کے سربراہ ہیں جو اسرائیل اور عرب ریاست کے درمیان کاروباری تعلقات کو فروغ دیتا ہے۔

متحدہ عرب امارات میں چھ بینکرز اور وکلاء نے یہ بھی کہا کہ اسرائیلی اور اماراتی کمپنیوں کے درمیان کاروباری تعلقات نے اسرائیلی جارحیت کو برداشت کیا ہے لیکن چند نئے سودے ہو رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ متحدہ عرب امارات کی حکومت اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو فروغ دینے کے بارے میں محتاط تھی۔ اسرائیل میں اس دوران بہت سے کاروباری اداروں کے عملے کو فوجی خدمات کے لیے بلایا گیا جس سے آپریشن متاثر ہوئے ہیں۔

متحدہ عرب امارات کے ایک اہلکار نے رائٹرز کے اس سوال کا براہ راست جواب نہیں دیا کہ جنگ سے اسرائیل کے ساتھ معاشی تعلقات کیسے متاثر ہوئے ہیں۔ تاہم اہلکار کا کہنا تھا کہ اسرائیل کے ساتھ متحدہ عرب امارات کی سفارتی اور سیاسی بات چیت نے غزہ کے لوگوں کی مدد کے لیے انسانی ہمدردی کی کوششوں میں سہولت فراہم کی۔

متحدہ عرب امارات واحد عرب ریاست ہے جو اب بھی اسرائیلی سفیر کی میزبانی کر رہی ہے۔ تل ابیب نے 7 اکتوبر کے بعد دیگر عرب ریاستوں سے اپنے سفارت کاروں کو واپس بلا لیا۔

اسرائیل کی وزارت خارجہ نے درخواست کے باوجود معاملے پر تبصرہ کرنے سے انکار کیا۔

2020 میں رسمی سفارتی تعلقات قائم کرنے کے بعد اسرائیل اور متحدہ عرب امارات نے تیزی سے اقتصادی شراکت داری قائم کی اور 2022 میں تجارتی معاہدہ کیا۔ اس کے برعکس مصر اور اردن کئی دہائیوں سے جاری امن معاہدے کے باوجود اسرائیل سے تجارتی تعلقات قائم کرنے میں ناکام رہے۔

اسرائیل کے مرکزی ادارہ شماریات کے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ سال تجارت 17 فیصد بڑھ کر 2.95 بلین ڈالر تک پہنچ گئی۔ ۔ ادارہ شماریات نے کہا کہ جنگ سے تجارتی جوش و جذبی میں کمی کے باوجود 2024 کی پہلی سہ ماہی میں تجارت سالانہ بنیادوں پر 7 فیصد زیادہ رہی۔

اسرائیلی سیاح بڑی تعداد میں امارات کا سفر کرتے رہے ہیں تاہم اب دبئی کے ہوٹلوں میں ان کی تعداد کم ہوتی جارہی ہے اگرچہ ان کا کہناہے کہ وہ یہاں خود کو محفوظ تصور کرتے ہیں۔

دیگر عرب ممالک کے برعکس متحدہ عرب امارات میں اسرائیل کیخلاف یا فلسطین کی حمایت میں عوامی مظاہرے نہیں ہوئے۔تاہم دبئی کی سڑکوں پر لوگوں کو فلسطینی قوم پرستی سے وابستہ علامتیں، جیسے سیاہ اور سفید کیفییہ پہنے دیکھا جاسکتا ہے۔

1990 کی دہائی کے اواخر میں پہلی بار امارات منتقل ہونے والے ایک امریکی نژاد یہودی بروس گرفین نے کہا کہ اب چیزیں بہت زیادہ معاملہ فہم ہوگئی ہیں اور اس سے 7 اکتوبر کا اس کے ساتھ تعلق ہے۔

جنگ سے پہلے ہی امارات میں کاروبار کرنے والے کئی اسرائیلیوں کا کہناہے کہ اماراتیوں اور دیگر عربوں کے ساتھ ان کے ذاتی اور تجارتی تعلقات متاثر نہیں ہوئے ہیں۔ لیکن ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ دونوں طرف سے مطالبہ ہے کہ کاروباری تعلقات کو عوامی سطح پر ظاہر نہ کیا جائے۔

اسرائیلی وینچر کیپیٹل فرم پیکو وینچر پارٹنرز کے شریک بانی ایلی ورٹمین نے کہا کہ میرے خیال میں کاروبا کیلئے جوش و جذبے میں کمی کا تجزیہ ایک منصفانہ بیان ہے تاہم دوسری طرف کاروبار معمول کے مطابق ہے۔

ورٹمین کا خیال ہے کہ اسرائیل اور امارات کے روابط معمول پر آنے کے بعد سے فوراً قائم ہونے والے قریبی تعلقات کی بدولت دونوں ممالک کے درمیان تجارتی تعلقات برقرار رکھنے میں مدد ملی ہے۔ رائٹرز کے مطابق دیگر اسرائیلی حکام اور ایگزیکٹوز کے جذبات بھی اس حوالے سے یہی ہیں۔

اسرائیل میں قائم ایک غیر سرکاری پلیٹ فارم یو اے ای-آئی ایل زون کے ایک اسرائیلی ایگزیکٹو نے کہا کہ اماراتی حکام نے انہیں یقین دلایا ہے کہ جنگ کے دوران اسرائیل میں سرمایہ کاری بند نہیں کی جائے گی لیکن انہوں نے اسرائیلیوں سے کہا ہے کہ وہ معاہدوں کا کوئی اعلان کرنے سے گریز کریں۔

ایگزیکٹو نے رائٹرز سے شناخت خفیہ رکھنے کی درخواست کی کیوں کہ وہ اس حوالے سے میڈیا سے بات کرنے کے مجاز نہیں تھے۔ متحدہ عرب امارات کے عہدیدار نے کوئی تبصرہ نہیں کیا۔

اسرائیلی کمپنی، واٹر جن جس نے ایسی مشینیں تیار کیں جو ہوا سے پینے کا پانی تیار کر سکتی ہیں، نے جون 2021 میں ابوظہبی کی فرم بینونہ اور تل ابیب یونیورسٹی کے ساتھ پانی کی ٹیکنالوجی میں تحقیق کو آگے بڑھانے کے لیے سہہ فریقی واٹر ریسرچ پارٹنرشپ کے معاہدے پر دستخط کیے تھے۔

کمپنی کے سی ای او میرلا شویلی نے کہا کہ اماراتی ہم منصبوں کے ساتھ شراکت داری بدستور جوش و جذبے کے ساتھ ہے اور انہوں نے 7 اکتوبر کے بعد سے تعلقات میں کوئی فرق محسوس نہیں کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم مل کر کام جاری رکھیں گے، ہم ان لوگوں کے ساتھ بہت مضبوط تعلقات رکھتے ہیں جن کے ساتھ ہم وہاں کام کرتے ہیں۔

تل ابیب یونیورسٹی اور بینونہ نے تبصرہ کی درخواست کا جواب نہیں دیا۔

واشنگٹن میں عرب خلیجی ریاستوں کے انسٹی ٹیوٹ کے ایک اسکالر رابرٹ موگیلنکی نے کہا کہ غزہ میں اسرائیلی جارحیت متحدہ عرب امارات کے لیے بڑے نئے اقتصادی اقدامات کرنے کے حوالے سے ایک“بڑی حوصلہ شکنی“ تھی۔

انہوں نے نوٹ کیا کہ متحدہ عرب امارات کے شہریوں میں جنگ پر غصہ اور تشویش بڑھ رہی ہے۔

اسرائیلی کمپنی نے مارچ میں علاقائی غیر یقینی صورتحال کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ابوظہبی کی سرکاری تیل کمپنی اڈونک اور بی پی نے اسرائیلی گیس پروڈیوسر نیو میڈ میں 2 بلین ڈالر کے حصص لینے کے منصوبے ترک کردیے

اڈونک کے موقف سے واقف 4 ذرائع نے بڑے معاہدوں کے ساتھ آگے بڑھنے کی امیدوں کے حوالے سے بتایا ہے کہ حالیہ صورتحال کے سبب مذاکرات معطل کرنے کے حوالے سے فیصلوں کا دباؤ ہے۔

الیف فارمز کے متبادل گوشت اسٹارٹ اپ کے چیف ایگزیکٹو ڈیڈیئر طوبیہ نے 2021 کے فنانسنگ راؤنڈ کے دوران ابوظہبی کے ریاستی فنڈ سے سرمایہ کاری حاصل کی ۔ انہوں نے رائٹرز کو بتایا کہ اماراتی فرموں کے ساتھ کاروبار کرنے والی اسرائیلی کمپنیوں سے متعلق اب حساسیت پیدا ہوگئی ہے۔

انہوں نے پیش گوئی کی کہ جارحیت ختم ہونے کے بعد کاروباری سرگرمیوں میں تیزی آئے گی۔

نیتن یاہو مایوس

متحدہ عرب امارات کے حکام کا کہنا ہے کہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات استوار کرنا ایک اسٹریٹجک فیصلہ تھا جسے وہ واپس لینے کا ارادہ نہیں رکھتے تاہم ان میں سے کچھ نے اسرائیل کی طرف سے جنگ کے خلاف قانونی کارروائی اور عام شہریوں کی اموات پر مایوسی کا اظہار کیا ہے۔

اس معاملے سے واقف چار ذرائع کے مطابق جنگ نے اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کے ساتھ متحدہ عرب امارات کے تعلقات کو درہم برہم کر دیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ متحدہ عرب امارات اب شاید ہی نیتن یاہو کے ساتھ براہ راست بات کرے اور اسرائیلی صدر آئزک ہرزوگ اسرائیل اور متحدہ عرب امارات کے تعلقات میں ایک اہم بات چیت کرنے والے تھے۔

ذرائع نے بتایا کہ متحدہ عرب امارات نے بھی 7 اکتوبر سے سابق وزرائے اعظم یائر لاپڈ اور نفتالی بینیٹ کے ساتھ تیزی سے مصروفیت شروع کر دی ہے کیونکہ نیتن یاہو پر اماراتی مایوسی بڑھ رہی ہے۔

نیتن یاہو کے دفتر نے کوئی تبصرہ نہیں کیا۔ ہرزوگ کے دفتر کے ساتھ ساتھ لیپڈ اور بینیٹ کے ترجمان نے بھی تبصرہ کرنے سے انکار کردیا۔

متحدہ عرب امارات کے عہدیدار نے نیتن یاہو کی حکومت کے ساتھ تعلقات کے بارے میں سوالات کا براہ راست جواب نہیں دیا، لیکن دو ریاستی حل پر مبنی ”ایک جامع اور منصفانہ امن“ کے حصول کے لیے تیز تر کوششوں پر زور دیا۔

اسرائیلی اپوزیشن لیڈر لیپڈ نے 2 مئی کو ابوظہبی میں وزیر خارجہ شیخ عبداللہ بن زید النہیان سے ملاقات کی۔

Read Comments