2023-24 کے غیر یقینی بجٹ نتائج

وفاقی وزارت خزانہ کی جانب سے مالی سال 2023-24 کی پہلی تین سہ ماہیوں کے لیے مالی آپریشنز کے نتائج کے اعداد و شمار حال ہی میں جاری کیے گئے ہیں۔

اسٹینڈ بائی فیسیلٹی کے تحت آئی ایم ایف کے ساتھ طے شدہ سالانہ بجٹ خسارہ 2023-24 کے لئے جی ڈی پی کا 7.7 فیصد ہے۔ انتہائی بلند شرح سود اور اندرونی قرضوں پر پہلے سے ہی زیادہ انحصار کو دیکھتے ہوئے توقع کی جارہی ہے کہ قرضوں کی ادائیگی پر خرچ جی ڈی پی کے 8.1 فیصد کی بلند ترین سطح تک بڑھ جائے گا۔ نتیجتا جی ڈی پی کا 0.4 فیصد پرائمری سرپلس ہوگا۔

یہ اہداف 2022-23 کی طرح جی ڈی پی کے 7.7 فیصد کے بجٹ خسارے کی نمائندگی کرتے ہیں ، لیکن جی ڈی پی کے ایک فیصد کے بنیادی خسارے میں ایک بڑی بہتری ہے۔ یہ شاید حیرت کی بات ہے کہ آپریشنل پروگرام کی کوریج کے تحت بھی آئی ایم ایف بجٹ خسارے کی غیر تبدیل شدہ سطح کو قبول کرنے کے لئے تیار تھا۔

تاہم 2022-23 میں قرضوں کی ادائیگی کی سطح جی ڈی پی کے 6.7 فیصد سے بڑھ کر 2023-24 میں جی ڈی پی کے 8.1 فیصد تک پہنچنے کے امکان کو دیکھتے ہوئے آئی ایم ایف نے بنیادی سرپلس / خسارے کی پوزیشن پر توجہ مرکوز کرنے کا انتخاب کیا تھا۔ توقع یہ ہے کہ 2022-23 میں جی ڈی پی کے 1 فیصد کے خسارے کے مقابلے میں 2023-24 میں جی ڈی پی کا بنیادی سرپلس 0.4 فیصد ہوگا۔

بنیادی سوال یہ ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں 24-2023 کی پہلی تین سہ ماہیوں میں مالیاتی محاذ پر کیسی کارکردگی دکھا رہی ہیں۔ اور کیا سالانہ اہداف کے پورا ہونے کا کوئی امکان ہے؟

پہلا موازنہ 2023-24 اور 2022-23 کی پہلی تین سہ ماہیوں کے اعداد و شمار کے درمیان ہے۔اس میں کچھ اچھی خبر ہے۔مالی خسارہ دونوں سالوں میں جی ڈی پی کے 3.5 فیصد کے قریب ہے۔ مزید برآں، 2022-23 کی پہلی تین سہ ماہیوں میں جی ڈی پی کے 0.6 فیصد کے مقابلے میں اس سال جی ڈی پی کا 1.5 فیصد پرائمری سرپلس ہے۔ ابتدائی تخمینہ یہ ہے کہ اس سال بجٹ کے محاذ پر کارکردگی بہتر ہونے کا امکان ہے اور اہداف حاصل کیے جاسکتے ہیں۔

تاہم، پہلی تین سہ ماہیوں میں اعداد و شمار کا گہرائی سے جائزہ لینے سے کچھ پریشان کن پیش رفت کا پتہ چلتا ہے۔

پہلا بظاہر مثبت نتیجہ 90 فیصد سے زائد نان ٹیکس محصولات کی غیر معمولی بلند شرح نمو ہے۔ اس کی وجہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) کے منافع کی وصولی اور پیٹرولیم لیوی سے حاصل ہونے والی آمدنی میں بہت تیزی سے اضافہ ہے۔

دوسری سہ ماہی کے اختتام تک اسٹیٹ بینک کے 972 ارب روپے کے منافع کی منتقلی کی گئی۔ سرکاری بانڈز یا ٹریژری بلز کی خریداری کے لیے کمرشل بینکوں کو قرضوں سے حاصل ہونے والی سود کی آمدنی میں بڑے اضافے کی وجہ سے اسٹیٹ بینک کے منافع میں 23-2022 کی سطح کے مقابلے میں 162 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ یہ وفاقی نان ٹیکس محصولات میں 90 فیصد سے زیادہ اضافے کی بنیادی وجہ ہے۔ لیکن 2023-24 میں اس ذریعہ سے مزید آمدنی نہیں ہوگی۔

پٹرولیم لیوی آمدنی میں بھی پہلی تین سہ ماہیوں میں تقریبا 99 فیصد کی غیر معمولی نمو ظاہر ہوئی ہے۔ لیکن اس ذریعہ سے آمدنی میں واضح کمی دیکھی جا رہی ہے۔ دوسری سہ ماہی میں یہ آمدنی 250 ارب روپے تھی جو تیسری سہ ماہی میں کم ہو کر 247 ارب روپے رہ گئی ۔ ایران سے تیل کی اسمگلنگ میں اضافے سے چوتھی سہ ماہی میں محصولات میں مزید کمی آسکتی ہے۔

وفاقی سطح پر اخراجات کی طرف دیکھیں تو اخراجات میں حیران کن التوا کے شواہد ملتے ہیں۔ مثال کے طور پر 2023-24 میں سبسڈی پر سالانہ اخراجات میں 60 فیصد اضافے کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔لیکن مانیں یا نہ مانیں، پہلی دو سہ ماہیوں میں پچھلے سال کے مقابلے میں اس مد میں اخراجات میں 10 فیصد کی کمی واقع ہوئی ہے، جس کا مطلب صرف بجٹ خسارے میں جی ڈی پی کے 0.4 فیصد کی کمی ہے۔ اور آگے یہ ختم ہوجائے گا کیونکہ آخری سہ ماہی میں سبسڈی پر تقریبا 591 ارب روپے خرچ ہونے کا امکان ہے۔

اسی طرح کا مسئلہ گرانٹس اور ترقیاتی منصوبوں پر اخراجات میں تاخیر سے بھی پیدا ہوا ہے۔ مالی سال 2023-24 میں گرانٹ پر خرچ میں 20 فیصد اضافے کا امکان ہے۔ تاہم، 2023-24 کی چوتھی سہ ماہی میں اب بھی تقریباً 300 ارب روپے کی گرانٹس کی تقسیم باقی ہے۔

پی ایس ڈی پی کے اخراجات میں بھی غیر معمولی کٹوتی کی گئی ہے۔ پہلی تین سہ ماہیوں میں 2022-23 کے مقابلے میں منصوبوں کے لئے فنڈز کی اصل تقسیم میں 3 فیصد کی کمی آئی ہے ، حالانکہ سال کے لئے ترقیاتی بجٹ 31 فیصد زیادہ ہے۔یہ بجٹ کا ایک حصہ ہے جہاں بجٹ خسارے پر قابو پانے کے لئے اخراجات میں ایک بڑی کمی کا امکان ہے۔

صوبائی حکومتوں کو 650 ارب روپے کے مشترکہ نقد سرپلس ہدف کے حصول میں بھی بڑا مسئلہ درپیش ہونے کا امکان ہے۔ اس سرپلس کی سہ ماہی پوزیشن میں ایک واضح تبدیلی ہے۔گزشتہ سال تیسری سہ ماہی کے اختتام پر سرپلس 456 ارب روپے تھا لیکن سال کے اختتام تک یہ تیزی سے کم ہو کر 154 ارب روپے رہ گیا۔ اسی طرح مالی سال 2023-24 کی تیسری سہ ماہی کے اختتام پر سرپلس 289 ارب روپے ہے۔ یہ نہ صرف پچھلے سال کی سطح سے تقریبا 37 فیصد کم ہے ، بلکہ چوتھی سہ ماہی میں اس میں مزید کمی آسکتی ہے۔

اطمینان کی کوئی بنیاد نہیں ہے. جیسا کہ اوپر بتایا گیا ہے، پہلے نو مہینوں میں آمدنی میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے، مگر چوتھی سہ ماہی میں سست روی متوقع ہے، مزید برآں، سبسڈیز، گرانٹس اور ترقی سے متعلق اخراجات میں حیران کن التوا کے ثبوت بھی موجود ہیں۔

اگر گردشی قرضوں میں اضافے، ایس او ایز (سرکاری اداروں) کے بڑے فنانسنگ مسائل اور ریلیف اخراجات میں کمی سے بچنا ہے تو چوتھی سہ ماہی میں ان اخراجات میں اضافہ کیا جائے گا۔ تشویش کی آخری بات یہ ہے کہ چاروں صوبائی حکومتوں کے مشترکہ طور پر سالانہ نقد سرپلس ہدف حاصل کرنے کے امکانات کم ہیں۔

مجموعی طور پر جب پاکستان مئی کی دوسری ششماہی میں آئی ایم ایف کے وفد کے ساتھ تین سالہ توسیعی فنڈ سہولت کے لیے بات چیت کا عمل شروع کر رہا ہے تو 2023-24 کے بجٹ کے نتائج پر بہت احتیاط سے توجہ مرکوز کیے جانے کا امکان ہے۔

اس مرحلے پر یہ توقع کی جاتی ہے کہ مندرجہ بالا وجوہات کے پیش نظر بجٹ خسارہ جی ڈی پی کے تقریبا 1 فیصد سے زیادہ ہوسکتا ہے اور جی ڈی پی کے 8.7 فیصد تک پہنچ سکتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوگا کہ سرپلس کے بجائے پرائمری خسارہ جی ڈی پی کا 0.6 فیصد ہوگا۔ نتیجتا نئے آئی ایم ایف پروگرام میں مالی استحکام کے لیے 2024-25 ء کے لیے بہت سخت بجٹ اہداف مقرر کیے جا سکتے ہیں۔

کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر، 2024

Read Comments