اسرائیل نے الجزیرہ کی نشریات بند کردیں، دفتر پر پولیس کا چھاپہ

05 مئ 2024

اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو نے اتوار کے روز کہا کہ ان کی حکومت نے قطری نشریاتی ادارے الجزیرہ کو بند کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اسرائیلی حکومت کا الجزیرہ کے ساتھ طویل عرصے سے تنازع چل رہا ہے۔

نیتن یاہو نے ایکس پر اپنی پوسٹ میں کہاکہ ہماری حکومت نے متفقہ طور پر فیصلہ کیا ہے کہ اشتعال انگیزی کیلئے اکسانے والے چینل الجزیرہ کو بند کردیا جائے گا۔

اسرائیلی وزیر مواصلات شلومو کارہی نے نیتن یاہو کے ساتھ ایک الگ مشترکہ بیان میں کہا کہ اسرائیل میں حماس کے ڈنکے بجانے کیلیئے اظہار رائے کی آزادی نہیں ہوگی۔

انہوں نے کہا کہ الجزیرہ کو فوری طور پر بند کر دیا جائے گا اور اس کا سامان ضبط کر لیا جائے گا۔

الجزیرہ نے اپنے دفاتر بند کرانے کے اسرائیل کے فیصلے کو مجرمانہ قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کی ہے۔

اسرائیلی اہلکار اور الجزیرہ سے وابستہ ذرائع نے رائٹرز کو بتایا کہ اسرائیلی پولیس نے حکومتی فیصلے کے بعد اتوار کے روز مقبوضہ بیت المقدس کے ہوٹل کے ایک کمرے میں قائم الجزیرہ کے دفتر پر چھاپہ مارا ۔

سوشل میڈیا اور ذرائع ابلاغ پر وائرل ویڈیو میں دیکھا جاسکتاہے کہ سادہ لباس اسرائیلی افسران الجزیرہ کے دفتر میں اکھاڑ پچھاڑ کررہے ہیں۔ الجزیرہ کے ذرائع نے بتایا کہ دفتر مشرقی مقبوضہ بیت المقدس میں قائم ہے۔

شلومو کارہی نے چینل کی نشریات میں استعمال ہونے والے آلات کو ضبط کرنے کا حکم جاری کیا جس میں کیمرے، مائیکروفون، سرورز اور لیپ ٹاپ، نیز وائرلیس ٹرانسمیشن کا سامان اور کچھ سیل فون بھی شامل ہیں۔

اسرائیل اور مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں الجزیرہ کے دفاتر کے سربراہ ولید العمری نے اس فیصلے پر رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ (اسرائیل کے) انتہائی دائیں بازو کے وزراء کی جانب سے آسان فتوحات کی تلاش کی مہم کا تسلسل ہے۔

انہوں نے کہا کہ ادارے کو اسرائیلی حدود میں کام کرنے والے دفاتر کی بندش اور اس کے نشریاتی آلات کو ضبط کیے جانے کی اطلاع دے دی گئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ الجزیرہ کی ویب سائٹس پر بھی پابندی ہوگی۔ انہوں نے مزید کہا کہ پابندیاں قانونی طور پر اسرائیلی کے زیر قبضہ مغربی کنارے کے علاقے پر لاگو نہیں ہوں گی اور اس کا اطلاق غزہ کی پٹی پر بھی نہیں ہوگا جہاں سے الجزیرہ اب بھی حماس کے ساتھ اسرائیل کی جنگ کی براہ راست نشریات کرتا ہے۔

الجزیرہ نے اس اقدام کو ایک ”مجرمانہ کارروائی“ قرار دیا اور اس الزام “ خطرناک اور مضحکہ خیز جھوٹ“ کو مسترد کردیا ہے کہ اس نے اسرائیلی سلامتی اور صحافیوں کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔

الجزیرہ کا کہناہے کہ اس کے پاس ہر قانونی طریقہ کار اختیار کرنے کا حق محفوظ ہے۔

قطری حکومت کی جانب سے الجزیرہ کی بندش سے متعلق تاحال کوئی تبصرہ سامنے نہیں آیا ہے۔

قطر نے 1996 میں الجزیرہ قائم کیا تھا اور یہ اس نیٹ ورک کو اپنے عالمی شناخت کو توقیت دینے کے طریقہ کار کے طور پر دیکھتا ہے۔

نیٹ ورک نے ایک بیان میں کہا کہ الجزیرہ میڈیا نیٹ ورک اس مجرمانہ فعل کی شدید مذمت کرتا ہے جو انسانی حقوق اور معلومات تک رسائی کے بنیادی حق کی خلاف ورزی ہے، الجزیرہ اپنے عالمی سامعین کو خبروں اور معلومات کی فراہمی جاری رکھنے کے اپنے حق کی توثیق کرتا ہے۔

اسرائیلی حکومت کی جانب سے اتوار کا فیصلہ گزشتہ ماہ بھاری اکثریت سے قومی سلامتی کے ایک نئے قانون کی منظوری کے بعد سامنے آیا ہے جس کے تحت اعلیٰ وزراء کو قومی سلامتی کے لیے خطرہ سمجھے جانے والے غیر ملکی چینلز کی نشریات پر پابندی لگانے اور دفاتر بند کرنے کا اختیار دیا گیا ہے۔

اس قانون کی منظوری کے فوراً بعد نیتن یاہو نے الجزیرہ کی نشاندہی کی جو خود کو ”عرب دنیا کا پہلا آزاد نیوز چینل“ قرار دیتا ہے۔

نیتن یاہو کی حکومت کا الجزیرہ کے ساتھ طویل عرصے سے تنازع چل رہا ہے جو غزہ میں اسرائیل کی جارحیت سے متعلق پیشگی اطلاعات دیتا ہے۔

چینل اپنی نشریات عربی اور انگریزی دونوں زبانوں میں کرتا ہے۔

اسرائیل پر حماس کے 7 اکتوبر کو بے مثال حملے کے بعد سے غزہ میں اسرائیلی جارحیت کی چینل کی کوریج پر اسرائیلی تنقید کے سبب تنازعہ بڑھ گیا ہے۔ اے ایف پی نے سرکاری اعداد و شمار کے حوالے سے بتایا ہے کہ اس حملے میں 1,170 سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے جن میں زیادہ تر عام شہری تھے۔

غزہ کی وزارت صحت کے مطابق حماس کو تباہ کرنے کا عزم کرتے ہوئے اسرائیل کی جوابی کارروائی سے غزہ میں کم از کم 34,683 افراد شہید ہو چکے ہیں جن میں بیشتر خواتین اور بچے شامل ہیں۔

صحافیوں کی عالمی تنظیم کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کے مطابق جنگ شروع ہونے کے بعد سے کم از کم 97 صحافی اور میڈیا کارکن مارے جا چکے ہیں جو1992 میں گروپ کی جانب سے اعداد و شمار شروع کرنے کے بعد سے ”صحافیوں کے لیے سب سے مہلک ترین دور“ ہے۔

جنوری میں اسرائیل نے کہا تھا کہ غزہ میں فضائی حملے میں مارے جانے والے الجزیرہ کا ایک صحافی اور فری لانسر ”دہشت گرد“ تھے۔

اس کے بعد اگلے مہینے میں بھی اسرائیل نے چینل سے وابستہ ایک اور صحافی پر الزام لگایا جو ایک الگ حملے میں زخمی ہوا تھا کہ وہ حماس کے ساتھ ”ڈپٹی کمپنی کمانڈر“ تھا۔

الجزیرہ نے اسرائیل کے الزامات کی سختی سے تردید کی ہے اور اس پر غزہ کی پٹی میں اپنے ملازمین کو منظم طریقے سے نشانہ بنانے کا الزام لگایا ہے۔

اقوام متحدہ نے الجزیرہ ٹی وی کو بند کرنے کے اسرائیلی فیصلے پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔

اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر نے ایکس پر اپنے بیان میں کہا کہ ہمیں اسرائیل میں الجزیرہ بند کرنے کے کابینہ کے فیصلے پر افسوس ہے۔ بیان میں کہا گیا کہ شفافیت اور جوابدہی کو یقینی بنانے کے لیے ایک آزاد اور خود مختار میڈیا ضروری ہے، اب غزہ سے رپورٹنگ پر سخت پابندیاں عائد کر دی گئی ہیں، اظہار رائے کی آزادی بنیادی انسانی حق ہے اور ہم اسرائیلی حکومت سے پابندی کو ختم کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔

اسرائیل کی پارلیمنٹ نے گزشتہ ماہ ایک قانون کی توثیق کی تھی جس کے تحت اسرائیل میں ان غیر ملکی نشریاتی اداروں کی عارضی طور پر بندش کی اجازت دی گئی تھی جسے قومی سلامتی کے لیے خطرہ سمجھا جاتا ہے۔

یہ قانون نیتن یاہو اور اس کی سکیورٹی کابینہ کو اسرائیل میں کسی بھی نیٹ ورک کے دفاتر 45 دنوں کے لیے بند کرنے کی اجازت دیتا ہے جبکہ قانون کے مطابق اس مدت میں توسیع بھی ممکن ہے۔ تاہم اس بات کے امکانات قوی ہورہے ہیں کہ الجزیرہ پر پابندی جولائی کے آخر تک یا غزہ میں بڑی فوجی کارروائیوں کے اختتام تک نافذ رہ سکتی ہے۔

قطر، جہاں حماس کے متعدد سیاسی رہنما مقیم ہیں، اسرائیلی جارحیت روکنے کیلئے جنگ بندی اور یرغمالیوں کی رہائی کے معاہدے میں ثالثی کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

Read Comments