وفاقی وزیر برائے نیشنل فوڈ سیکیورٹی اینڈ ریسرچ (ایم این ایف ایس اینڈ آر) رانا تنویر نے کہا ہے کہ نگران حکومت نے اپنے دور میں گندم درآمد کی جس سے مسئلہ پیدا ہوا، اور اسکی ذمہ داری ان لوگوں پر عائد کی جائے گی جنہوں نے گندم کی ضرورت سے زیادہ درآمد کی اجازت دی۔
صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ قومی زرعی تحقیقاتی مرکز (این اے آر سی) نے بتایا ہے کہ درآمد کنندگان نے اپنے کوٹے سے زائد گندم درآمد کی، گندم کی درآمد کی مدت میں مزید توسیع کی گئی اورگندم بھی آخری تاریخ کے بعد درآمد کی گئی۔
انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم شہباز شریف کی جانب سے بنائی گئی انکوائری کمیٹی نے اپنی رپورٹ جمع کرادی ہے اور رپورٹ میں حقائق بیان کیے گئے ہیں، درحقیقت کیری فارورڈ اسٹاک میں پہلے ہی 4.2 ملین ٹن گندم موجود تھی۔
وزیرخوراک نے کہا کہ وزیر اعظم نے معاملے کی مزید تحقیقات کے لیے ایک اور کمیٹی تشکیل دینے کے ساتھ ساتھ ذمہ داروں کا تعین کرنے کی بھی ہدایت کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس معاملے میں کئی محکمے ملوث ہیں، گندم کی کھیپ لے جانے والے جہازوں کی آمد کی تاریخ جاننے کے لیے اسٹیٹ بینک آف پاکستان سے رابطہ کیا جائے گا۔
قبل ازیں، این اے آر سی کے دورے کے دوران انہوں نے کہا کہ زرعی شعبے کو جدید ٹیکنالوجی سے آراستہ کیا جائے گا تاکہ پاکستان میں حقیقی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھایا جا سکے، ان کے دورے کا مقصد تحقیقی معیارات کا جائزہ لینا تھا، زراعت پاکستان کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ کسانوں کی فلاح و بہبود اور زرعی ترقی موجودہ حکومت کی اولین ترجیحات ہیں، معیاری بیج کی فراہمی کے بغیر فصل کی پیداوار کو بہتر بنانا مشکل ہے۔
رانا تنویر نے کہا کہ تحقیقی شعبہ زندگی کے ہر شعبے میں اہمیت کا حامل ہے، زرعی شعبے کو تحقیق اور جدید ٹیکنالوجی سے آراستہ کیا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ حکومت کسانوں کو ہر ممکن وسائل فراہم کرے گی۔ جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے زرعی انقلاب کے لیے صحت مند، غیر زہریلی کھادوں کی فراہمی کو یقینی بنانا ایک ترجیح ہے۔
وزیر خوراک نے کہا کہ پاکستان کی کل آبادی کا 70 فیصد سے زائد براہ راست یا بالواسطہ طور پر زراعت سے وابستہ ہے، زرعی شعبے میں جدید ٹیکنالوجی کو اپنانا غذائی تحفظ کو یقینی بنانے اور فصلوں کی پیداوار بڑھانے کے لیے ضروری ہے۔
کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر، 2024