وزیراعظم شہباز شریف کی ریاض میں موجودگی اور پارٹی سربراہ نوازشریف کی چین میں موجودگی کے دوران اسحاق ڈار کی نائب وزیراعظم کے طور پر تقرری کی ٹائمنگ بہت اہم ہے جس نے وفاقی دارالحکومت میں قیاس آرائیوں کو جنم دیا ہے کہ کیا اس فیصلے کی تمام اسٹیک ہولڈرز سے ضروری منظوری لی گئی ہے ۔
اعلیٰ سطح ذرائع کے مطابق اسٹیبلشمنٹ نے عندیہ دیا ہے کہ وہ اسحاق ڈار کی بطور نائب وزیراعظم تقرری کی مخالفت نہیں کرے گی بشرطیکہ وہ معاشی معاملات میں مداخلت سے باز رہیں ۔ نواز شریف گروپ کے پہلے ہی سائیڈ لائنز پر جانے کے بعد کوئی بھی مداخلت ان کی سیاسی مطابقت کو مزید کم کرسکتی ہے۔
ذرائع نے مزید کہا کہ اسٹیبلشمنٹ خاص طور پر معیشت کے حوالے سے مزید سیاسی تجربات سے بچنے کی خواہشمند ہے۔
اسحاق ڈار کی بطور نائب وزیراعظم تقرری کو پارٹی کے سربراہ نوازشریف کی طرف سے مالی قلمدان سے ہونے والے نقصان کی تلافی کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
اسحاق ڈار جو نوازشریف کے ساتھ قریبی تعلق کے لیے جانے جاتے ہیں ، اس سے قبل نواز شریف کے بطور وزیراعظم دور میں ڈی فیکٹو نائب وزیراعظم کے طور پرخدمات انجام دے چکے ہیں۔
اس عہدے کے لیے آئینی شق کی عدم موجودگی کے باوجود چودھری پرویزالٰہی کی جون 2012 سے مارچ 2013 میں پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی جانب سے تقرری کے بعد ڈار اس عہدے پر فائز ہونے والے چوتھے فرد بن گئے ہیں ۔
اس سے قبل نائب وزیراعظم کا عہدہ 1971 میں ذوالفقارعلی بھٹو کے پاس تھا، جو 13 دن کی مختصر مدت کے لیے اس عہدے پر فائز رہے اور نصرت بھٹو مارچ 1989 سے اگست 1990 تک اس عہدے پر فائز رہیں۔
سیاسی تجزیہ کار ڈار کی نائب وزیر اعظم کے طور پر تقرری کو پارٹی کے درمیان کشیدگی کا اشارہ سمجھتے ہیں۔
وزارت خزانہ سے انکار کے بعد اسحاق دالر کی سینیٹ چیئرمین کے عہدے کے لیے ابتدائی طور پر غور کیا گیا، بعدازاں ڈار کی نامزدگی واپس لے لی گئی ۔ اطلاعات کے مطابق پیپلز پارٹی کی جانب سے شہباز شریف کی حمایت کرنے کے بدلے میں اپنی ہی پارٹی کے وفادار گیلانی کو یہ عہدہ الاٹ کرنے کے لیے دباؤ کے باعث واپس لے لیا گیا۔
مسلم لیگ (ن) کے ایک سینئر رہنما نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بزنس ریکارڈر کو بتایا کہ ڈار کو نائب وزیراعظم بنانے کا فیصلہ اس وقت ہوا جب محمد اورنگزیب کو وزیر خزانہ بنایا گیا۔
مسلم لیگ ن کے ایک اور ذریعے نے بتایا کہ ڈار جو اسٹیبلشمنٹ کی شدید مزاحمت کے بعد موجودہ وفاقی کابینہ میں وزارت خزانہ حاصل کرنے میں ناکام رہے اس اقدام سے ناراض تھے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ڈار کو ’عارضی طور پر‘ وزیر خارجہ کا قلمدان دیا گیا ہے، کیونکہ وزیر اعظم شہبازشریف پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کو وزیر خارجہ بنانا چاہتے ہیں، لیکن پیپلز پارٹی نے کابینہ میں توسیع کے اگلے مرحلے تک کابینہ میں کوئی قلمدان لینے سے انکار کر دیا۔
کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر، 2024