وزیر اعظم شہباز شریف نے اتوار کو سعودی عرب کے وزیر سرمایہ کاری خالد الفالح، وزیر خزانہ محمد الجدعان اور وزیر صنعت بندر بن ابراہیم الخوریف سے الگ الگ ملاقاتیں کیں اور باہمی دلچسپی کے امور پر تبادلہ خیال کیا۔
ملاقاتوں کے دوران سعودی وزیر برائے سرمایہ کاری نے وزیراعظم کو ’’وزیراعظم آف ایکشن‘‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’’ہم سب آپ کی کارکردگی اور کام کی رفتار سے واقف ہیں‘‘۔
انہوں نے کہا کہ وزیراعظم پاکستان کی ترقی کے مشن کو آگے بڑھا رہے ہیں اور ہم سب آپ کے ساتھ ہیں، آپ کا مشن ہمارا مشن ہے۔
سعودی وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ سعودی سرمایہ کاروں کا وفد جلد پاکستان کا دورہ کرے گا۔ پاکستان ان کی سرمایہ کاری کی ترجیح ہے اور سعودی عرب زراعت، انفارمیشن ٹیکنالوجی اور توانائی کے شعبوں میں تعاون جاری رکھے گا۔
انہوں نے کہا کہ ماضی میں پاکستانیوں نے مختلف شعبوں میں سعودی عرب کی ترقی میں نمایاں کردار ادا کیا۔
وزیراعظم اور سعودی وزیر خزانہ کے درمیان ملاقات میں اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ سعودی عرب پاکستان میں سرمایہ کاری کے مزید مواقع تلاش کرے گا۔
سعودی وزیر خزانہ نے پاکستان کی معاشی ترقی میں سعودی عرب کی حمایت کا اعادہ کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی ترقی سعودی عرب کی ترقی ہے۔
انہوں نے کہا کہ سعودی عرب نے اپنے ویژن 2030 کے حوالے سے حکومتی سطح پر اصلاحات کے لیے مشکل فیصلے لیے۔
وزیراعظم نے سعودی وزیر صنعت سے بھی ملاقات کی۔ سعودی وزیر صنعت نے پاکستان کے ساتھ زراعت، کان کنی، انفارمیشن ٹیکنالوجی اور دیگر شعبوں میں تعاون میں گہری دلچسپی کا اظہار کیا اور اس سلسلے میں ہونے والی پیش رفت سے آگاہ کیا۔
سعودی وزیر نے کہا کہ وہ پاکستان میں سرمایہ کاری کے حوالے سے سعودی نجی کمپنیوں سے رابطے میں ہیں اور ان کمپنیوں کے نمائندے جلد پاکستان کا دورہ کریں گے۔
انہوں نے مزید کہا کہ دونوں ممالک کی نجی کمپنیوں کے درمیان تعاون ان کی حکومت کی ترجیح ہے۔
سعودی وزراء سے گفتگو کرتے ہوئے وزیراعظم نے حرمین شریفین کے متولی شاہ سلمان بن عبدالعزیز اور ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان بن عبدالعزیز کا مشکل وقت میں پاکستان کا ساتھ دینے پر شکریہ ادا کیا۔
انہوں نے کہا کہ ان کی حکومت کے سابقہ دور میں سعودی عرب کی حمایت اور مدد سے پاکستان کے معاشی حالات بہتر ہوئے۔
انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان اور سعودی عرب اسٹریٹیجک پارٹنر ہیں۔ ان ملاقاتوں میں وزیر خارجہ اسحاق ڈار، وزیر خزانہ و محصولات محمد اورنگزیب، وزیر اطلاعات و نشریات عطا اللہ تارڑ، وزیر پٹرولیم مصدق ملک، وزیر تجارت جام کمال خان اور وزیر بجلی اویس احمد خان لغاری بھی موجود تھے۔