لوگوں کے دو گروہ اداس چہروں کے ساتھ اس ہفتے کا آغاز کر چکے ہوں گے۔
طویل عرصے سے خام تیل بیجنے والے تاجر مشرق وسطیٰ کے تمام تناؤ سے فوری فائدہ اٹھانے کے لیے بے چین ہیں۔ خاص طور پر جب سے ایران نے حالیہ تاریخ کا سب سے بڑا حملہ کیا ہے تاکہ شام میں اسرائیل کی کارروائیوں کے خلاف اپنا پہلا براہ راست ردعمل ظاہر کیا جا سکے۔ ان تمام واقعات میں موقع پرستوں نے خوب افواہیں پھیلا کر فائدہ اٹھایا۔
پیر کو تیل کے قیمتوں میں کمی ہوئی کیونکہ تہران نے پہلے ہی اپنے ارادوں کو ٹیلی گراف کر دیا تھا، یہاں تک کہ اہم دارالحکومتوں کو فون کالز بھی کی تھیں، اس لیے مارکیٹ نے ہفتے کے آخر سے پہلے جیو پولیٹیکل رسک پریمیم میں قیمتیں طے کر لی تھیں۔ اس کے علاوہ، دمشق میں اسرائیل کا یہ خاص حملہ مختلف تھا۔ اس نے ایرانی سفارت خانے کو نشانہ بنایا، مؤثر طریقے سے ایرانی سینئر جنرلز کو ہلاک کیا۔ اس سے پہلے بھی ایران کے ایلیٹ کمانڈروں کو گولی مار کر ہلاک کیا جاچکا ہے۔ جنوری 2020 میں ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے عراق میں جنرل سلیمانی کو قتل کرنے کا حکم دینے کے بعد، عراق میں امریکی اڈوں پر میزائلوں کا حملہ یاد ہوگا، جس کے نتیجے میں درجنوں فوجیوں کو دماغی زخم کا سامنا کرنا پڑا تھا؟
یہ دیوار پر تحریر تھا۔
اسرائیل کی جنونی، پاگل دائیں بازو کی کابینہ میں بنیامین (بی بی) نیتن یاہو کو گھیرنے والے وہ باز ہیں جن کی ملک کے اندر بھی قانونی حیثیت بہت کم ہے۔ انہوں نے نہیں سوچا تھا کہ یہ ممکن ہے، لیکن انہیں اس پیر کو بالآخر پتہ چلا کہ واشنگٹن اسرائیل پر حملے کو امریکہ پر حملے کے طور پر نہیں دیکھتا۔ اور یہ بھی واضح ہوگیا کہ امریکا ایران پر کسی بھی اسرائیلی جوابی حملے کا حصہ نہیں بنے گا۔
اس کا مطلب ہے کہ اسرائیلی وزیراعطم کی چال ناکام ہوگئی۔
ہر ایک جو اس خطے کو جانتا ہےاس کو پتا تھا کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں 25 مارچ کو فوری جنگ بندی کا مطالبہ کرنے والی قرارداد منظوری کے موقع پر امریکا کی عدم شرکت سے اسرائیل کو جھٹکا لگا، جس نے نیتن یاہو پر دبائو میں اضافہ کیا۔
نیتن یاہو کو ملکی سیاست میں گرفت مضبوط کرنے کے لیے مزید فلسطینی جنازوں کی ضرورت ہے، جہاں اس کے ناقدین نے اس کی نسل کشی کی مہم کو “ حکمت عملی کی فتح لیکن اسٹریٹیجک ناکامی“ قرار دینا شروع کر دیا ہے۔
صدر بائیڈن نے پہلے انہیں رفح میں داخل ہونے سے روکا کیا، پھر اقوام متحدہ میں ساتھ نہ دیا۔ امریکی صدر نے نیتن یاہو کو اس وقت چھوڑ دیا جب اسے جنوبی غزہ میں ٹینکوں کی ضرورت پڑی۔ لہٰذا ایران کو ردعمل پر بھڑکانا تاکہ امریکہ کو جنگ میں کھینچا جاسکے، اگریہ ایک پیشین گوئی تو یہ بہت اچھی پیشگوئی تھی ۔
اس سے نیتن یاہو کے پاس صرف ایک آپشن رہ جاتا ہے۔ اپنی عقابی اور خونی کابینہ کا فائدہ اٹھاتے ہوئے لبنان میں حزب اللہ کو نشانہ بنا کر ایران کو مزید مشتعل کیا جائے۔ نیتن یاہو کے لیے، یہ ایک آسان انتخاب ہے۔ یا تو یہ سب ہو جائے یا وزارت عظمیٰ چھن جائے، گرفتار ہو جائیں، کرپشن کے طویل مقدمے اور طویل جیل کی سزا کا سامنا کرنا پڑے۔
یہی وجہ ہے کہ تیل کی منڈی ابھی تک تمام جیو پولیٹیکل رسک پریمیم کو نظرانداز کرنے کو تیار نہیں ہے۔ قیاس آرائی کرنے والوں کے لیے ایک چھوٹی سی کھڑکی کھلی ہے اور وہ اپنے نقصانات کو پورا کرنے کیلئے اپنے ہاتھ جلا چکے ہیں۔ مختلف نظریات اور ہنگامی حالات کی گونج ہر طرف ہے۔
سٹی گروپ کو توقع ہے کہ اگر قیمتوں مزید اضافہ ہوتا ہے تو تیل سو ڈالر تک پہنچ جائے گا۔
بلومبرگ کے مطابق ایران اور اسرائیل کے درمیان براہ راست تصادم کے ممکنہ تسلسل کے نیتجے میں تیل کی قیمتیں 100ڈالر بی بی ایل تک بڑھ سکتی ہے
دیگر، جیسے Lipow Oil Associates اور سی این بی سی نے کہا کہ ایران میں تیل کی پیداوار یا برآمدی تنصیبات پر کسی بھی حملے سے خام تیل کی قیمت 100 ڈالر تک پہنچ جائے گی، اور آبنائے ہرمز کی بندش سے قیمتیں 120 ڈالر تک پہنچ جائیں گی۔جو 130 ڈالر بھی ہوسکتی ہے۔
Societe Generale نے ابھی تک کا سب سے زیادہ خطرناک انتباہ جاری کیا ہے، کہ “امریکہ میں بڑھتی تیل کی قیمت کے باعث قیمتیں 140 ڈالر فی بیرل تک بڑھ سکتی ہیں، جو بائیڈن کیلئے ڈراؤنا خواب ہوگا۔ پہلے ہی بڑھتا افراط زر امریکی مرکزی بینک کو شرح سود میں کمی سے روک رہا ہے اور اسی وجہ سے امریکی تاجر اور گھرانے ناخوش ہیں اور الیکشن بالکل قریب ہے۔ خود ڈیموکریٹس کو دنیا بھر میں مہنگائی کی ایک اور لہر سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا، جس کی وجہ صرف یہ ہے کہ نیتن یاہو مزید لوگوں کو مارنا چاہتا ہے تاکہ وہ وزیر اعظم کے طور پر اپنا عہدہ برقرار رکھ سکے۔
یہی وجہ ہے کہ انرجی اور یوٹیلیٹیز سٹریٹجسٹ مارننگ سٹار، جو اس وقت خطرات کو الٹا دیکھتے ہیں درست ثابت ہو سکتا ہے۔ ان کے مطابق 100ڈالر فی بیرل کے مقابلے میں 2024 کے آخر تک تیل کی قیمت75 ڈالر تک برقرار رہ سکتی ہے۔
لیکن مارننگ سٹار کی مارکیٹ کے بارے میں پیشگوئی درست ہونے کے لیے، نیتن یاہو کو اپنے پاگل پن کی مزید امریکی توثیق کے بارے میں غلط ثابت ہونا پڑے گا۔
لہذا، اپنی نظریں خام تیل پر رکھیں۔
کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر،