پاکستان میں مہنگائی کنٹرول کرنے کے لیے گزشتہ دو یا تین برسوں کے دوران مانیٹری پالیسی سخت ہو رہی ہے، جس میں کمی آنے کا امکان ہے تاہم طلب اور رسد کے حوالے سے مزید کام کرنے کی ضرورت ہے۔
یہ بات انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) کے مانیٹری اینڈ کیپٹل مارکیٹس ڈیپارٹمنٹ کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر جیسن وو نے ایک پریس بریفنگ سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔
انہوں نے مزید کہا کہ طلب اور رسد دونوں طرف مہنگائی میں حصہ ڈالتے ہیں۔ اس لحاظ سے پالیسی بنانے کی ضرورت ہے،مالیاتی استحکام کو جاری رکھنے کی ضرورت ہے اور توانائی شعبے کی سپلائی سائیڈ اصلاحات پر ریاستی ملکیتی اداروں کی ضرورت ہے۔ جیسن وو نے مزید کہا کہ بہت سی معیشتوں کو بھی اسی طرح کے چیلنجز کا سامنا ہے اور ہم اس معاملے پر پاکستان کے ساتھ مصروف عمل ہیں۔
واضح رہے کہ وزیر خزانہ کا کہنا ہے کہ پاکستان اور آئی ایم ایف ملٹی بلین ڈالر کے نئے پروگرام پر تبادلہ خیال کررہے ہیں۔
آئی ایم ایف فنانشل کونسلر اور ڈائریکٹر مانیٹری اینڈ کیپٹل مارکیٹس ڈیپارٹمنٹ ٹوبیاس ایڈریان نے کہا کہ پاکستان ایک پروگرام میں ہے، پاکستان میں مرکزی بینک کی پالیسیوں اور مالیاتی شعبوں سمیت بڑے چیلنجز بھی شامل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ معاملات کے حل کرنے میں اکثر کچھ وقت لگتا ہے۔
آئی ایم ایف عہدیدار نے مزید بتایا کہ اب کچھ ممالک میں افراط زر کی کمی اور اضافے دونوں کے خطرات ہیں ، کئی ممالک میں افراط زر بڑھنے اور کئی کو نیچے جانے کے خطرات درپیش ہیں، آئی ایم ایف کا مرکزی بینکوں کو جو اہم پیغام ہے وہ یہ یقینی بنانا ہے کہ مہنگائی مستقل طور پر اپنے ہدف کی طرف بڑھ رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ دنیا بھر میں ہم مرکزی بینکوں کی طرف سے بات چیت دیکھتے ہیں جو شرحوں میں کمی کی توقع رکھتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ کچھ مرکزی بینکوں نے شرحوں میں کمی کرنا شروع کردی ہے، ترقی یافتہ معیشتوں میں سوئٹزرلینڈ نے شرحوں میں کمی کرنا شروع کردی ہے اور ابھرتی ہوئی مارکیٹوں نے بہت پہلے شرح کم کرنا شروع کردی ہے، برازیل، میکسیکو اس حوالے سے اچھی مثالیں ہیں، لیکن اہم اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ ہم مہنگائی کے اہداف پر مستقل طور پر واپس آ جائیں اور وقت سے پہلے کٹوتی نہ کریں۔ انہوں نےمزید کہا کہ تمام ممالک کیلئے یہ واقعی ایک اہم پیغام ہے۔