توانائی شعبے میں اصلاحات، حکومت نے آئی ایم ایف کو ٹیرف میں اضافے سمیت نئی یقین دہانیاں کرا دیں

11 اپريل 2025

وزیراعظم شہباز شریف کی حکومت نے توانائی کے شعبے میں اصلاحات کے لیے انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) کو کئی نئی یقین دہانیاں کرائی ہیں، جن میں بجلی اور گیس دونوں شعبے شامل ہیں۔

ان وعدوں میں ٹیرف میں باقاعدہ اضافہ، گردشی قرضے کو سنٹرل پاور پرچیزنگ ایجنسی (سی پی پی اے-جی) کو منتقل کرنا، اور بجلی یا گیس پر کسی بھی نئی سبسڈی کے نفاذ پر مکمل پابندی شامل ہے۔

یہ حکمت عملی 24 فروری سے 14 مارچ 2025 کے دوران آئی ایم ایف مشن سے مشاورت کے بعد تیار کی گئی، جس کے بعد آن لائن مشاورت کا سلسلہ جاری رہا۔

وزارت خزانہ کے ذرائع کے مطابق توانائی کے شعبے میں اخراجات میں کمی کے لیے کی جانے والی اصلاحات کو ہی پائیداری اور کم ٹیرف کا واحد راستہ سمجھا جا رہا ہے۔

پاکستان کی نئی توانائی حکمتِ عملی کا مقصد گردشی قرضے میں اضافے کو روکنا اور ایسے ڈھانچہ جاتی اقدامات متعارف کروانا ہے جو توانائی شعبے کی پائیداری اور صارفین، خصوصاً کمزور طبقات، کے تحفظ میں توازن قائم کریں۔ ان کوششوں کے باعث مالی سال 25 کی پہلی ششماہی میں 450 ارب روپے کی بہتری آئی، جو تخمینوں سے زیادہ ہے، جس کی وجہ کم فنانسنگ لاگت اور وصولیوں میں بہتری ہے۔

جنوری 2025 تک بجلی کے شعبے کا گردشی قرضہ 2,444 ارب روپے (جی ڈی پی کا 2.1 فیصد) تک پہنچ گیا، جبکہ جون 2024 تک گیس شعبے کا گردشی قرض 2,294 ارب روپے (جی ڈی پی کا 2.2 فیصد) ہو چکا تھا۔ حکام نے آئی ایم ایف کو یقین دلایا ہے کہ توانائی کے ٹیرف کو لاگت کے مطابق رکھا جائے گا، مالیاتی خطرات کو کم کیا جائے گا، قرضوں کی پائیداری کو یقینی بنایا جائے گا، اور کاروبار دوست ماحول کو فروغ دیا جائے گا۔ ان کا ہدف مالی سال 25 کے اختتام تک گردشی قرضے میں اضافے کو صفر پر لانا ہے، اور مالی سال26 میں بھی یہی ہدف برقرار رہے گا۔

گردشی قرضے کے انتظامی منصوبے کے تحت، حکومت نے آئی ایم ایف کو وعدہ کیا ہے کہ بجلی کے ٹیرف میں بروقت اضافہ کیا جائے گا تاکہ لاگت کی مکمل وصولی ممکن ہو۔ نیپرا کی جانب سے سہ ماہی ٹیرف ایڈجسٹمنٹ (کیو ٹی اے) اور ماہانہ فیول کاسٹ ایڈجسٹمنٹ (ایف سی اے) کے خودکار نوٹیفکیشن جاری رہیں گے تاکہ اصل لاگت اور بنیادی ٹیرف میں فرق کو کم کیا جا سکے۔ حکومت نے جولائی 2025 میں سالانہ ری بیسنگ، کیو ٹی اے اور ایف سی اے کے مکمل نفاذ کی یقین دہانی کرائی ہے۔ تمام صوبوں نے بجلی اور گیس پر کسی نئی سبسڈی نہ دینے پر اتفاق کیا ہے۔

گردشی قرضے کو کم کرنے کے لیے حکومت نے موجودہ گردشی قرضوں کو سینٹرل پاور پرچیزنگ ایجنسی(سی پی پی اے) کے قرضے میں تبدیل کرنے کا منصوبہ بنایا ہے۔ بجلی کے شعبے کے موجودہ گردشی قرضے کا حجم 2.4 کھرب روپے ہے، جس میں سے 348 ارب روپے آئی پی پیز سے بقایاجات پر بات چیت کے ذریعے صاف کیے جائیں گے، جس میں 127 ارب روپے پہلے سے بجٹ میں رکھی گئی سبسڈی سے اور 221 ارب روپے سی پی پی اے کے کیش فلو سے ادا کیے جائیں گے؛ 387 ارب روپے سود کی معافی سے، اور 254 ارب روپے اضافی بجٹ میں رکھی گئی سبسڈی سے کلیئر کیے جائیں گے؛ جبکہ 224 ارب روپے غیر سودی واجبات کو کلیئر نہیں کیا جائے گا۔

باقی 1.252 کھرب روپے بینکوں سے قرض لے کر پاور ہولڈنگ کمپنی کے تمام قرضے (683 ارب روپے) اور آئی پی پیز کے سود والے واجبات (569 ارب روپے) کی ادائیگی کے لیے استعمال کیے جائیں گے۔ یہ قرض کم شرح سود پر لیا جائے گا اور اس کی ادائیگیاں چھ سال کے دوران ڈیٹ سروس سرچارج (ڈی ایس ایس) کے ذریعے کی جائیں گی، جسے سالانہ بنیاد پر نیپرا کے ریونیو کے 10 فیصد کے برابر رکھا جائے گا۔ اگر ڈی ایس ایس کی آمدنی ادائیگی کے لیے ناکافی ہو تو اس میں اضافہ کیا جائے گا۔ حکومت جون 2025 تک ڈی ایس ایس کی حد ختم کرنے کے لیے قانون سازی کرے گی۔

مالی سال 26 کے بجٹ میں بجلی کی سبسڈی کے لیے کم رقم مختص کی جائے گی، کیونکہ اصلاحاتی اقدامات کے نتیجے میں اخراجات میں کمی متوقع ہے۔

تاہم، حکومت نے 17 مارچ 2025 سے محدود مدت کی سبسڈی متعارف کرانے کا فیصلہ کیا ہے، جس کی مالی اعانت پیٹرولیم ڈویلپمنٹ لیوی (پی ڈی ایل) میں 10 روپے فی لیٹر اضافے سے ہو گی، جو جون 2026 تک جاری رہے گی اور اس سے سالانہ 182 ارب روپے اکٹھے کیے جائیں گے۔

یہ سبسڈی نان لائف لائن صارفین کے لیے ہو گی اور بجلی کے ٹیرف میں اوسطاً 1.7 روپے فی یونٹ کمی آئے گی۔ اس کے علاوہ، کیپٹو پاور پلانٹس پر لگنے والے ٹرانزیشن لیوی سے بھی حکومت کو آمدن ہونا شروع ہو گئی ہے، جس سے مزید 0.90 روپے فی یونٹ کمی کی جا سکے گی۔

یہ سبسڈی جی ڈی پی کے زیادہ سے زیادہ 0.8 فیصد تک محدود ہو گی، اور اس کا اطلاق درج ذیل مدات پر ہو گا: (i) پی ڈی ایل سے حاصل آمدن سے عارضی ریلیف، (ii) ٹیرف فرق کی ادائیگیاں، (iii) فاٹا اور کے الیکٹرک کے واجبات، (iv) زرعی ٹیوب ویلز، اور (v) گردشی قرض کے فلو کی ادائیگیاں۔

حکام نے اصلاحات کو مزید تیز کرنے اور بنیادی مسائل کے حل کے لیے عالمی بینک، ایشیائی ترقیاتی بینک، اور دیگر ترقیاتی شراکت داروں کے تعاون سے اقدامات کا عندیہ دیا ہے۔

کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر، 2025

Read Comments