ناکام ہوتا ٹیکس نظام

28 مارچ 2025

ملک کا بنیادی طور پر ناقص ٹیکس نظام کاروباری ماحول کو متاثر کررہا ہے، معاشی ترقی کی رفتار سست کررہا ہے اور اہم ترقیاتی اہداف میں رکاوٹ بن رہا ہے جس سے پائیدار ترقی کے خواہاں کاروباری اداروں اور افراد کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔

پاکستان بزنس مین اینڈ انٹیلیکچوئل فورم کے صدر میاں زاہد حسین نے اس مسئلے پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ ٹیکس نظام کی کمزوریاں اور عدم توازن دستاویزی ٹیکس دہندگان پر اضافی بوجھ ڈال رہے ہیں، جبکہ اہم شعبے اور بڑے سرمایہ کار اس کے دائرے سے باہر ہیں۔

میاں زاہد حسین کے مطابق ٹیکس نظام کی بنیادی خرابی اس کی شدید غیر منصفانہ نوعیت ہے جو معیشت کے تمام شعبوں سے مساوی ٹیکس وصولی کو یقینی بنانے میں ناکام ہے۔ نہ صرف ٹیکس نیٹ انتہائی محدود ہے، جس کی وجہ سے کئی شعبے اس کے دائرے سے باہر رہتے ہیں، بلکہ ٹیکس بیوروکریسی مستقل ایسی پالیسیاں نافذ کر رہی ہے جو پہلے سے نظام میں شامل ٹیکس دہندگان سے زیادہ سے زیادہ محصولات وصول کرنے پر مرکوز ہیں۔

اس کا نتیجہ نہایت کمزور ٹیکس ٹو جی ڈی پی شرح، ٹیکس حکام پر عوامی عدم اعتماد اور اہم معاشی شعبوں کی ٹیکس نیٹ میں شمولیت سے ہچکچاہٹ کی صورت میں نکلتا ہے، کیونکہ ٹیکس کی تعمیل فائدے کے بجائے سزا کی مانند محسوس ہوتی ہے۔

یہ سمجھنا ضروری ہے کہ پاکستان میں ہر معاشی سرگرمی پر کم از کم ٹرن اوور ٹیکس لاگو ہوتا ہے، چاہے منافع ہو یا نقصان۔ ایک مؤثر ٹیکس نظام عام طور پر خالص منافع پر ٹیکس عائد کرتا ہے، تاکہ کاروباری اداروں پر صرف آمدنی ہونے کی صورت میں ٹیکس لگے۔ اگر کوئی کمپنی نقصان اٹھاتی ہے، تو وہ اسے آئندہ کے قابلِ ٹیکس منافع سے منہا کر سکتی ہے، جس سے ٹیکس کا بوجھ اس کی اصل مالی حالت کے مطابق منصفانہ رہتا ہے۔

اس کے برعکس پاکستان کا موجودہ ٹیکس نظام تمام کاروباری اداروں کو 0.5 فیصد سے 8 فیصد تک کا کم از کم ٹرن اوور ٹیکس ادا کرنے کا پابند بناتا ہے، چاہے وہ منافع میں ہوں یا نقصان میں۔ یہ نظام معاشی ترقی کو فروغ دینے کے بجائے مشکلات کا شکار کاروبار پر غیر ضروری بوجھ ڈال دیتا ہے، سرمایہ کاری کی حوصلہ شکنی کرتا ہے اور مجموعی اقتصادی سرگرمیوں کو متاثر کرتا ہے۔

مزید برآں، کاروباری اداروں کو پیچیدہ وِدہولڈنگ ٹیکس نظام سے بھی گزرنا پڑتا ہے، جہاں مختلف مراحل پر الگ الگ ٹیکس شرحیں لاگو ہوتی ہیں۔ آمدنی اور اثاثوں پر ٹیکس عائد کرنے کے بجائے، ٹیکس حکام لین دین پر ٹیکس لگانے کو ترجیح دیتے ہیں۔

نتیجتاً کم از کم ٹیکس اور وِدہولڈنگ ٹیکس پر مبنی ٹیکس نظام ان کاروباری اداروں پر خاص طور پر سخت ثابت ہوتا ہے جو پیداوار کے مختلف مراحل پر متعدد آزاد کاروبار پر انحصار کرتے ہیں۔

سپلائی چین کے ہر مرحلے—خام مال کی پروسیسنگ سے لے کر مینوفیکچرنگ، تقسیم اور ریٹیل تک—کو اپنے ٹرن اوور پر کم از کم ٹیکس ادا کرنا پڑتا ہے۔ نتیجتاً، ہر مرحلے پر بار بار ٹیکس لاگو ہوتا ہے، جس سے مجموعی مالی بوجھ بڑھ جاتا ہے اور کاروباری لاگت میں اضافہ ہو جاتا ہے۔

یہ بگڑا ہوا ٹیکس نظام بنیادی طور پر ایف بی آر کی پالیسیوں کا نتیجہ ہے، جو بلند محصولات کے اہداف کے تعاقب میں آسان راستے اپناتا ہے اور ایسے غیر مؤثر اقدامات نافذ کرتا ہے جو معیشت کے لیے نقصان دہ ثابت ہوتے ہیں۔ بالواسطہ ٹیکسز پر حد سے زیادہ انحصار ان طبقات پر اضافی بوجھ ڈالتا ہے جو انہیں برداشت کرنے کی سکت نہیں رکھتے جب کہ ٹیکس نیٹ کو وسعت دینے کی کوششیں نہایت ناکافی ثابت ہوئی ہیں۔

یہ پیچیدہ نظام افراد اور کاروباری اداروں کو ٹیکس نیٹ میں شامل ہونے سے روکتا ہے جبکہ جو لوگ قانونی طور پر ٹیکس ادا کرتے ہیں، ان پر غیر متناسب بوجھ ڈال دیا جاتا ہے اور انہیں اس کے بدلے کوئی خاص فائدہ نہیں ملتا۔ نتیجتاً، حکومت مطلوبہ محصولات اکٹھے کرنے میں ناکام رہتی ہے، جس کے باعث توانائی، بنیادی ڈھانچے، صحت، تعلیم اور ماحول جیسے اہم شعبے مالی وسائل کی کمی کا شکار رہتے ہیں۔

ہر سال ایف بی آر کو بڑھتے ہوئے ریونیو اہداف کا سامنا ہوتا ہے، جہاں کارکردگی کی جانچ اور ترقی کا انحصار ان اہداف کے حصول پر ہوتا ہے۔ ایسے میں ضروری ہے کہ ٹیکس نیٹ کے دائرہ کار کو وسیع کرنے کے لیے بھی اتنے ہی سخت اہداف مقرر کیے جائیں۔

شاید تب ایک حد سے زیادہ متحرک ٹیکس بیوروکریسی قلیل المدتی اور غیر مؤثر اقدامات کے بجائے اس اہم مقصد پر بھی توجہ دے۔

مزید برآں ٹیکس حکام کو یہ سمجھنا ہوگا کہ ان کی موجودہ ریونیو اکٹھا کرنے کی پالیسی مؤثر نہیں، کچھ شعبوں میں حد سے زیادہ ٹیکس عائد کرنے کے نتیجے میں محصولات میں کمی واقع ہوئی ہے کیونکہ کاروبار اس مالی بوجھ کو برداشت کرنے سے قاصر ہیں۔ یہ اس بات کی شدت سے نشاندہی کرتا ہے کہ بالواسطہ اور وِدہولڈنگ ٹیکسز سے ہٹ کر متبادل پالیسیوں پر غور کیا جائے۔ ایک پائیدار ٹیکس نظام کو قلیل مدتی وصولیوں کے بجائے طویل مدتی اقتصادی نمو اور رضا کارانہ ٹیکس ادائیگی پر توجہ دینی چاہیے۔

کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر، 2025

Read Comments