گرمی کی شدت، لاگت میں کمی : انورٹر فین نے مارکیٹ پر کس طرح غلبہ حاصل کیا

پاکستان میں بجلی کی قیمتوں کے بلند رہنے کے باعث متوسط طبقے کے صارفین انورٹر پنکھوں کا رخ کر رہے ہیں، جنہیں وہ...
اپ ڈیٹ 28 مارچ 2025

پاکستان میں بجلی کی قیمتوں زیادہ رہنے کے باعث متوسط طبقے کے صارفین انورٹر فین کی جانب رخ کر رہے ہیں، جنہیں وہ بجلی کے بلز کو کم کرنے کے لیے ایک بہتر متبادل سمجھتے ہیں۔

سولر پینلز کے برعکس جس میں بہت زیادہ ابتدائی لاگت کے باوجود مسلسل مینٹیننس کے اخراجات بھی برداشت کرنے پڑتے ہیں، انورٹر فین صرف ایک بار کی لاگت سے یہ مسئلہ حل کردیتا ہے اور بجلی کے استعمال میں بھی نمایاں کمی لاتا ہے۔

خورشید فینز کے مارکیٹنگ مینیجر شاہ زیب الیاس نے بزنس ریکارڈر کو بتایا کہ پاکستان میں 2013 میں متعارف کرائے گئے انورٹر پنکھوں نے تیزی سے مقبولیت حاصل کی ہے اور حالیہ برسوں میں اس کی طلب میں 20 سے 30 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ روایتی پنکھے اب مارکیٹ کا صرف 2-3 فیصد ہیں کیونکہ صارفین بجلی کی بڑھتی ہوئی لاگت سے نمٹنے کے لئے توانائی کی بچت کا حل تلاش کرتے ہیں۔

سروے میں شامل صارفین نے اس بات کی بھی تصدیق کی ہے کہ روایتی پنکھوں کو انورٹر یا اے سی / ڈی سی پنکھوں سے تبدیل کرنے کے بعد انہوں نے اپنے بجلی کے بلوں میں 25 فیصد سے زیادہ کمی دیکھی ہے۔

سید حنین عباس جعفری، جنہوں نے حال ہی میں انورٹر فین کی طرف رخ کیا، نے کہا کہ انہوں نے دیکھا کہ ان کا بجلی کا بل ہر ماہ 3،000 روپے کم ہو رہا ہے۔ ایک اور صارف محمد دانش نے بتایا کہ ان کا بجلی کا بل جو پہلے 25 ہزار سے 28 ہزار روپے تھا، تبدیلی کے بعد کم ہو کر 17 سے 18 ہزار روپے رہ گیا۔

پاکستان کی انورٹر فین انڈسٹری بھی گھریلو طلب سے آگے بڑھ رہی ہے، جس کی 80 فیصد پیداوار اب مقامی طور پر ہو رہی ہے سوائے سرکٹس کے جو درآمد کیے جا رہے ہیں۔ یہ پنکھے یمن، سوڈان، مصر اور ایتھوپیا جیسے ممالک کو بھی برآمد کیے جا رہے ہیں۔

چونکہ پاکستان بجلی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں سے دوچار ہے، انورٹر پنکھے متوسط طبقے کے گھرانوں کے لئے ایک حد تک قابل رسائی اور عملی حل کے طور پرسامنے آئے ہیں۔ ان کی کفایت شعاری، اور قابل ذکر توانائی کی بچت کے ساتھ، یہ بڑھتے ہوئے یوٹیلیٹی بلوں کے خلاف جنگ میں ایک لازمی گھریلو سامان بنتے جا رہے ہیں۔

Read Comments