وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے جمعہ کے روز موسمیاتی تبدیلی کو ملک کیلئے وجودی خطرہ قرار دیا جو حکومت کے معاشی استحکام کے اہداف کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔
ان خیالات کا اظہار انہوں نے گلیشیئرز کے عالمی دن کے موقع پر وزارت موسمیاتی تبدیلی اور ماحولیاتی رابطہ کاری کے زیر اہتمام منعقدہ ایک اعلیٰ سطحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔
وزیر خزانہ نے ڈھانچہ جاتی اصلاحات سمیت حکومت کی معاشی بحالی کی کوششوں کا اجاگر کیا۔
انہوں نے کہا کہ یہ صحیح کام ہیں اور ہماری معیشت بہت اچھی حالت میں ہوگی۔
انہوں نے کہا کہ ملکی معیشت پہلے ہی میکرو سائیڈ پر استحکام حاصل کرچکی ہے۔ لیکن آخر کار، اگر ہم اس وجودی خطرے سے نہیں نمٹتے ہیں تو معاشی ترقی کی پائیداری جس کی ہم تلاش کر رہے ہیں وہ حاصل نہیں ہو سکے گی۔
عالمی سطح پر گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں ایک فیصد سے بھی کم حصہ ڈالنے کے باوجود پاکستان موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے 10 سب سے زیادہ خطرے والے ممالک میں شامل ہے۔
پاکستان کے اقتصادی سروے 25-2024 کے مطابق غیر متوقع موسمی پیٹرن، جس کے نتیجے میں اچانک سیلاب، خشک سالی، برفانی جھیلوں کا پھٹنا، شدید گرمی کی لہریں اور بے ترتیب بارشیں موسمیاتی تبدیلی کے تباہ کن اثرات کے طور پر سامنے آتی ہیں۔
شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے محمد اورنگزیب نے کہا کہ میکرو لیول پر ہمارے پاس این ڈی سیز، نیشنل ایڈیپٹیشن پلان ہے۔ باکو میں ہم نے قومی موسمیات کی مالی حکمت عملی کا آغاز کیا ، لہذا ان میں سے بہت سارے بلڈنگ بلاکس موجود ہیں۔
ان کوششوں کے باوجود محمد اورنگزیب نے تسلیم کیا کہ پاکستان کے لیے ماحولیاتی فنانسنگ کے حوالے سے ایک بڑا خلا موجود ہے۔
انہوں نے 10 سالہ کنٹری پارٹنرشپ فریم ورک کے لئے ورلڈ بینک گروپ کے کردار کو سراہتے ہوئے کہا، “ہم صحیح سمت میں آگے بڑھ رہے ہیں، لیکن جب فنانسنگ کے خلا کو پورا کرنے کی بات آتی ہے تو ہمیں ابھی ایک طویل سفر طے کرنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان میں تین ہزار سے زائد گلیشیئر جھیلیں ہیں جن میں سے 33 انتہائی غیر مستحکم ہیں اور کم از کم 70 لاکھ افراد کو شدید خطرے میں ڈال رہی ہیں۔ یہ خطرناک اعداد و شمار ہیں۔