پاکستان اسٹاک ایکسچینج کے گزشتہ روز ریکارڈ سطح پر پہنچنے کے بعد منافع لینے کے رجحان نے مارکیٹ کی تیزی کو کم کردیا، جس کے نتیجے میں بینچ مارک کے ایس ای- 100 انڈیکس 300 سے زائد پوائنٹس کی کمی کے ساتھ بند ہوا۔
مارکیٹ کا آغاز مثبت انداز میں ہوا اور کے ایس ای-100 انڈیکس 119,405.92 کی انٹرا ڈے بلند ترین سطح تک پہنچا، تاہم منافع کے رجحان کے باعث ابتدائی فوائد زائل ہوگئے اور انڈیکس 327.60 پوائنٹس یا 0.28 فیصد کمی کے ساتھ 118,442.18 پر بند ہوا۔
اہم شعبوں بشمول آٹوموبائل اسمبلرز، سیمنٹ، کمرشل بینکس، پاور جنریشن اور ریفائنریز میں فروخت کا رجحان دیکھا گیا۔ حبکو، اے آر ایل، ایم اے آر آئی، پی پی ایل، ایم سی بی، ایم ای بی ایل اور این بی پی جیسی بڑی کمپنیوں کے حصص منفی زون میں ٹریڈ ہوئے۔
بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے عملے کی سطح کے معاہدے (ایس ایل اے) کے بارے میں امید کی وجہ سے اسٹاک مارکیٹ میں ریکارڈ تیزی دیکھی گئی ہے۔
اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) کے گورنر جمیل احمد نے امید ظاہر کی ہے کہ پاکستان اور آئی ایم ایف جلد ہی ایس ایل اے تک پہنچ جائیں گے۔ تاہم اسٹیٹ بینک کے سربراہ نے ایس ایل اے پر دستخط کرنے کے لیے کوئی ٹائم فریم نہیں دیا۔
مزید برآں، مارکیٹ توانائی کے شعبے کے گردشی قرضوں کو حل کرنے کے لئے حکومتی کوششوں پر بھی گہری نظر رکھے ہوئے ہے، جو اگر حل کیا جائے تو، اس شعبے میں کمپنیوں کے نقدی کے بہاؤ میں مدد ملے گی.
جمعرات کو پی ایس ایکس نے اپنی ریکارڈ توڑ تیزی کو جاری رکھا اور بینچ مارک کے ایس ای 100 انڈیکس پہلی بار 119,000 کی سطح عبور کرنے کے بعد 118,769.77 کی نئی بلند ترین سطح پر بند ہوا۔
جمعہ کے روز ایشیائی اسٹاکس میں نمایاں کمی دیکھی گئی کیونکہ بڑھتے ہوئے جغرافیائی سیاسی خدشات اور امریکی ٹیرف کے اثرات کے باعث سرمایہ کاروں میں خدشات بڑھ گئے۔ اس غیر یقینی صورتحال میں سرمایہ کار محفوظ سرمایہ کاری کی طرف مائل ہوئے، جس کی وجہ سے سونے کی قیمتیں ریکارڈ سطح کے قریب پہنچ گئیں۔
ایشیائی تجارتی اوقات میں ایس اینڈ پی 500 اور نیسڈیک فیوچرز مستحکم رہے، جبکہ یورپی مارکیٹ کے فیوچرز کمزور آغاز کی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔
دنیا بھر کے پالیسی سازوں نے محتاط رویہ اپنایا، کیونکہ عالمی معیشت اور سیاست میں غیر یقینی کی فضا برقرار ہے۔ امریکی فیڈرل ریزرو، بینک آف جاپان اور بینک آف انگلینڈ نے اپنی شرح سود میں کوئی تبدیلی نہیں کی۔
مرکزی بینکاروں نے خبردار کیا کہ عالمی تجارتی کشیدگی، خاص طور پر صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے نئے ٹیرف عائد کرنے کے اعلان کے بعد، عالمی معیشت کو غیر یقینی صورتحال کا سامنا ہے۔ ٹرمپ 2 اپریل سے نئے ریسیپروکل ٹیرف عائد کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں، جس سے سرمایہ کار مزید پریشان ہو گئے ہیں۔
اسی دوران، اسرائیلی فضائی حملوں اور یوکرینی ڈرون حملے سے روسی فوجی اڈے پر دھماکے کی اطلاعات نے جغرافیائی سیاسی کشیدگی کو مزید بڑھا دیا، جس سے سرمایہ کاروں نے سونے جیسی محفوظ سرمایہ کاری کا رخ کیا۔
ایم ایس سی آئی کا وسیع ترین انڈیکس، جو جاپان کے علاوہ ایشیا پیسیفک کے حصص کا احاطہ کرتا ہے، 0.85 فیصد تک گر گیا۔ چین، ہانگ کانگ، تائیوان اور انڈونیشیا کی اسٹاک مارکیٹس میں نمایاں کمی دیکھی گئی۔
آل شیئر انڈیکس کا حجم گزشتہ بند کے 667.88 ملین سے کم ہو کر 369.12 ملین رہ گیا۔
جبکہ حصص کی قیمت گزشتہ سیشن کے 38.53 ارب روپے سے کم ہو کر 23.27 ارب روپے رہ گئی۔
اس کے بعد پاک ریفائنری 27.36 ملین شیئرز اور فوجی فوڈز لمیٹڈ 26.35 ملین شیئرز کے ساتھ تیسرے نمبر پر رہی۔
جمعہ کو 442 کمپنیوں کے حصص کا کاروبار ہوا جن میں سے 193 کمپنیوں کے حصص کی قیمتوں میں اضافہ، 190 میں کمی جبکہ 52 میں استحکام رہا۔