کے الیکٹرک بورڈ اضافی رائٹ آف کلیمز کی منظوری کیلئے تیار

17 مارچ 2025

کے-الیکٹرک کا بورڈ 18 مارچ 2025 کو اپنے 125ویں اجلاس میں 2017 سے 2023 کے مالی سالوں کے دوران ہونے والے بلنگ کلیمز کے مزید رائٹ آف کی منظوری دینے کے لیے تیار ہے۔ اس اقدام کا مقصد توانائی ٹاسک فورس کے ساتھ طے پانے والی مفاہمت کے تحت نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) سے 50 ارب روپے کے کلیمز کی منظوری حاصل کرنا ہے۔ باخبر ذرائع کے مطابق، کے-الیکٹرک کے تمام زیر التوا اور غیر حل شدہ معاملات اس وقت توانائی کے وزیر، سردار اویس خان لغاری کی سربراہی میں قائم ٹاسک فورس کے زیر غور ہیں۔

کے-الیکٹرک کے بورڈ کے چیئرمین، مارک جیرارڈ اسکیلٹن نے نشاندہی کی کہ کمپنی، قاعدے کے مطابق، سات دن پہلے اجلاس کے نوٹس اور ضروری دستاویزات فراہم نہیں کر سکتی، لہٰذا اہم معاملات کو مختصر نوٹس پر زیر بحث لایا جا رہا ہے۔ چیئرمین کے مطابق، توانائی ٹاسک فورس، پاور ڈویژن اور نیپرا کے ساتھ ہونے والی بات چیت میں واضح کیا گیا کہ 2017 سے پہلے کے بلنگ کلیمز قبول نہیں کیے جا سکتے۔ تاہم، یہ طے پایا کہ کے-الیکٹرک 2017 سے 2023 کے دوران ہونے والے بلنگ کلیمز کے مزید شواہد فراہم کر سکتا ہے تاکہ 50 ارب روپے کی منظوری ممکن بنائی جا سکے، جبکہ ابتدائی طور پر 68 ارب روپے کے کلیمز دائر کیے گئے تھے۔

کلیمز کی جانچ کا عمل داخلی آڈیٹرز سے شروع ہو کر کمپنی کے قانونی آڈیٹرز کی حتمی تصدیق پر مکمل ہوگا۔ داخلی آڈیٹرز نے 8.9 ارب روپے کے کلیمز کی تصدیق کر دی ہے، جبکہ قانونی آڈیٹرز اب تک 6 ارب روپے کے کلیمز کی توثیق کر چکے ہیں۔ توقع ہے کہ جلد ہی مکمل رقم کی تصدیق ہو جائے گی، جس کے بعد بورڈ آف ڈائریکٹرز اور آڈٹ کمیٹی سے منظوری کے بعد نیپرا کو بھیجا جائے گا۔

نیپرا نے 10 دسمبر 2024 کو 2017 سے 2023 کے درمیان 68 ارب روپے کے رائٹ آف کلیمز پر حتمی فیصلہ محفوظ کر لیا تھا۔ سماعت کے دوران کے-الیکٹرک کے چیف فنانشل آفیسر عامر غازیانی نے وضاحت کی کہ اگر نیپرا کلیمز کی منظوری دیتا ہے، تو اس رقم کو مالی سال 25-2024 کے لیے مختص 88 ارب روپے میں ایڈجسٹ کیا جائے گا۔ تاہم، حکومت فیصلہ کرے گی کہ اس بوجھ کو صارفین پر منتقل کرنا ہے یا خود برداشت کرنا ہے۔ نیپرا کے فنانس ممبر نے 17-2016 کے کلیمز پر سوال اٹھایا، جس پر کے-الیکٹرک کے نمائندوں نے مؤقف اختیار کیا کہ چونکہ ملٹی ایئر ٹیرف کی شرائط میں کسی مخصوص مالی سال کی حد مقرر نہیں کی گئی، اس لیے کمپنی صارفین سے بقایاجات کا دعویٰ کر سکتی ہے۔

کے-الیکٹرک کے سی ای او، سید مونس عبداللہ علوی نے وضاحت کی کہ ملک بھر میں بجلی کی وصولی کا تناسب 90 فیصد ہے، جبکہ باقی 10 فیصد گردشی قرضے کا حصہ بن جاتا ہے، جو اس وقت تقریباً 2.8 سے 2.9 ٹریلین روپے تک پہنچ چکا ہے۔ کے-الیکٹرک نے مالی سال 2017 سے 2023 کے لیے مجموعی طور پر 68 ارب روپے کے کلیمز داخل کیے ہیں، جن میں مختلف مالی سالوں کے تحت واجبات شامل ہیں۔

کے-الیکٹرک کے سی ای او اور سی ایف او نے نیپرا کو بتایا کہ کے-الیکٹرک کو اب تک ملٹی ایئر ٹیرف کے تحت ریکوری نقصانات کے لیے کسی قسم کا معاوضہ نہیں ملا۔ کمپنی نے اپنے آڈٹ شدہ کھاتوں میں 119 ارب روپے کے نقصانات درج کیے ہیں، جن میں سے 68 ارب روپے کی منظوری کی درخواست کی گئی ہے۔ نیپرا کے اجلاس میں 2016 کے 24 ارب روپے کے کلیمز پر بھی اعتراض اٹھایا گیا، کیونکہ یہ ملٹی ایئر ٹیرف کے موجودہ دورانیے سے پہلے کا ہے۔ تاہم، کے-الیکٹرک نے مؤقف اختیار کیا کہ رائٹ آف کلیمز عام طور پر پچھلے واجبات سے متعلق ہوتے ہیں اور نیپرا کی شرائط میں کسی مالی سال کی حد مقرر نہیں کی گئی۔

کمپنی نے نیپرا کو آگاہ کیا کہ اس نے واجبات کی وصولی کے لیے مختلف اقدامات کیے ہیں، جن میں عدم ادائیگی پر بجلی منقطع کرنا، بیرونی ریکوری ایجنسیوں کی خدمات حاصل کرنا، اور قسطوں میں ادائیگی کی سہولت شامل ہے۔ سی ایف او عامر غازیانی نے اس بات پر زور دیا کہ کے-الیکٹرک کے رائٹ آف کلیمز صرف بل کیے گئے لیکن غیر وصول شدہ واجبات سے متعلق ہیں، اور ان میں بجلی چوری یا غیر بل شدہ یونٹس شامل نہیں۔

اب فیصلہ حکومت کو کرنا ہے کہ آیا 50 ارب روپے کے کلیمز صارفین پر منتقل کیے جائیں گے یا حکومتی سبسڈی کے ذریعے ان کا بوجھ کم کیا جائے گا۔ نیپرا کے حتمی فیصلے کے بعد اس معاملے کی نوعیت مزید واضح ہو جائے گی۔

Read Comments