پبلک اکائونٹس کمیٹی کا اجلاس، سی سی آئی کا اجلاس نہ بلانے پر وزیراعظم پر تنقید

  • پی اے سی کی شدید تشویش سیکریٹری وزارت بین الصوبائی رابطہ کو پہنچائیں، پرنسپل اکاؤنٹنگ آفیسر جو ہدایت
17 مارچ 2025

پبلک اکاؤنٹس کمیٹی (پی اے سی)، جس کی سربراہی جنید اکبر کر رہے ہیں، نے اس بات پر شدید تشویش کا اظہار کیا ہے کہ آئینی تقاضے کے باوجود مشترکہ مفادات کونسل (سی سی آئی) کے اجلاس 90 دن کے اندر نہیں بلائے جا رہے۔ خاص طور پر گیس ڈویلپمنٹ سرچارج (جی ڈی ایس) اور آرڈیننس میں ترمیم جیسے معاملات، جن کا تعلق صوبائی محصولات سے ہے، سی سی آئی کی سطح پر زیر بحث لائے جانے چاہئیں۔ کمیٹی نے پرنسپل اکاؤنٹنگ آفیسر (پی اے او) کو ہدایت دی کہ وہ پی اے سی کی شدید تشویش سیکریٹری وزارت بین الصوبائی رابطہ کو پہنچائیں اور اس معاملے کو فوری طور پر وزیر اعظم کے ساتھ اٹھایا جائے۔

یہ خدشات پی اے سی کے 18 فروری 2025 کے اجلاس میں سامنے آئے، جہاں توانائی کے شعبے کے مختلف مسائل پر بات چیت کی گئی۔

سرکاری دستاویزات کے مطابق، آڈٹ رپورٹ میں انکشاف ہوا کہ ڈائریکٹوریٹ جنرل (گیس) نے مالی سال 23-2022 کے دوران 30 جون 2023 تک گیس انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ سیس (جی آئی ڈی سی) کی مد میں 354.047 ارب روپے اکٹھے کیے۔

تاہم، وفاقی حکومت صرف 3.344 ارب روپے ہی استعمال کر سکی، جو کہ ایس جی ایس ایل کے آپریشنل اخراجات اور جی ایچ پی ایل کو قرض کی واپسی کے لیے خرچ کیے گئے۔ یہ فنڈز ترکمانستان-افغانستان-پاکستان-بھارت (تاپی) گیس پائپ لائن، ایران-پاکستان (آئی پی) پائپ لائن، اور پاکستان اسٹریم گیس پائپ لائن پروجیکٹ (پی ایس جی پی) کے لیے مختص تھے۔

تاہم، ان بڑے گیس انفراسٹرکچر منصوبوں پر پیش رفت بہت سست رہی، جس کی وجہ سے جی آئی ڈی سی کے 350.703 ارب روپے غیر استعمال شدہ رہے۔

کمیٹی نے جی آئی ڈی سی کے 3.3 ارب روپے کے آپریشنل اخراجات پر تشویش کا اظہار کیا اور پی اے او کو ہدایت دی کہ وہ ان تمام منصوبوں پر ایک جامع بریفنگ فراہم کریں، نیز ان کے ممکنہ حل اور آئندہ کے لائحہ عمل پر بھی روشنی ڈالیں۔ یہ معاملات آئندہ پی اے سی اجلاسوں میں زیر بحث آئیں گے۔

آڈٹ رپورٹ میں یہ بھی انکشاف ہوا کہ ڈائریکٹوریٹ جنرل (گیس) نے کھاد اور بجلی بنانے والی کمپنیوں کو فروخت کی گئی گیس پر 33.915 ارب روپے کا جی ڈی ایس وصول نہیں کیا۔ مزید یہ کہ ان کمپنیوں کے لیے کوئی مقررہ وقت متعین نہیں کیا گیا تھا کہ وہ صارفین سے وصول کردہ جی ڈی ایس حکومت کو کب تک ادا کریں، جس کی وجہ سے کمپنیوں کو جی ڈی ایس روکنے کی سہولت حاصل ہو گئی۔

ماری پٹرولیم کمپنی لمیٹڈ (ایم پی سی ایل) کے معاملے پرپی اے سی کو بتایا گیا کہ کمپنی اپنی گیس فروخت کی قیمت کو حکومت کی مقرر کردہ قیمت کے مطابق یا اس سے کم رکھ رہی ہے، خاص طور پر جب کھاد بنانے کے لیے گیس فراہم کی جاتی ہے، جس سے کمپنی کو 14.745 ارب روپے کا نقصان ہو رہا ہے۔

دوسری جانب، بجلی گھروں کو فروخت کی جانے والی گیس کی قیمت مقررہ قیمت سے زیادہ رکھی گئی، جس کے نتیجے میں 15.948 ارب روپے کا مثبت فرق پیدا ہوا۔

حکومت نے گیس کی فروخت کو سبسڈی فراہم کرنے کے لیے کوئی بجٹ مختص نہیں کیا تھا، جس کی وجہ سے کمپنی کو 14.745 ارب روپے کے نقصان کا سامنا کرنا پڑا اور ساتھ ہی 15.948 ارب روپے کی ادائیگی کا بوجھ بھی اٹھانا پڑا۔

پاکستان پٹرولیم لمیٹڈ (پی پی ایل) نے بتایا کہ جینکو-II مسلسل گیس کے بلوں کی بروقت ادائیگی میں ناکام رہی، جس کی وجہ سے پی پی ایل حکومت کو جی ڈی ایس کی بروقت ادائیگی نہیں کر سکا۔ پی پی ایل انتظامیہ جینکو سے بقایا جات کی وصولی کے لیے بھرپور کوشش کر رہی ہے۔

ڈیپارٹمنٹل اکاؤنٹس کمیٹی (ڈی اے سی) نے بتایا کہ بجلی کے شعبے میں گردشی قرضے کی وجہ سے پاور کمپنیوں سے جی ڈی ایس کی وصولی التوا کا شکار ہے۔ ماری پٹرولیم اور دیگر گیس کمپنیوں کے منفی جی ڈی ایس کو ایڈجسٹ کرنے کے لیے جی ڈی ایس آرڈیننس 1967 میں ترمیم کا عمل شروع کیا گیا ہے۔

یہ معاملہ سی سی آئی میں اٹھایا جانا ضروری ہے کیونکہ اس کا تعلق صوبائی محصولات سے ہے۔

آڈٹ نے یہ بھی نشاندہی کی کہ ایم پی سی ایل نے 14.745 ارب روپے کا منفی جی ڈی ایس ایڈجسٹ کیا، جو کہ موجودہ قوانین کے تحت قابل قبول نہیں تھا۔ مزید یہ کہ پی پی ایل اور ایم پی سی ایل نے 23.965 ارب روپے کا جی ڈی ایس ادا نہیں کیا، حالانکہ انہیں بجلی کی کمپنیوں سے گیس کی مد میں ادائیگیاں موصول ہو چکی تھیں۔ ڈی اے سی نے انتظامیہ کو ہدایت دی کہ وہ بجلی کے شعبے سے 23.965 ارب روپے کی وصولی تیز کرے اور جی ڈی ایس آرڈیننس 1967 میں ترمیم سے متعلق معاملے کو مزید آگے بڑھائے۔

تفصیلی بحث کے بعد، پی اے سی نے درج ذیل سفارشات اور ہدایات جاری کیں:

1 . پی اے سی نے مشاہدہ کیا کہ وفاقی حکومت کی جانب سے جی ڈی ایس کی وصولی نہ ہونے کی وجہ سے صوبوں کو ان کے جائز حصے سے محروم رکھا جا رہا ہے۔

2 . گیس کی قیمت تین سال تک نظرثانی نہ کرنا اور اس میں مناسب ردوبدل نہ کرنا کھاد کمپنیوں کو غیر ضروری فائدہ پہنچانے کے مترادف ہے۔

3 . کمیٹی نے اس بات پر سخت تشویش کا اظہار کیا کہ سی سی آئی کے اجلاس 90 دن کے اندر نہیں بلائے جا رہے، حالانکہ یہ آئینی تقاضہ ہے۔ کمیٹی نے پی اے او کو ہدایت دی کہ وہ پی اے سی کے تحفظات وزارت بین الصوبائی رابطہ کے سیکریٹری کو پہنچائیں اور معاملہ فوری طور پر وزیر اعظم کے سامنے پیش کیا جائے۔

4 . کمیٹی نے وزارت قانون و انصاف کے نمائندے کی عدم تیاری پر سخت ناپسندیدگی کا اظہار کیا اور ہدایت دی کہ آئندہ اجلاس میں وزارت قانون و انصاف کی طرف سے ایسا سینئر افسر شرکت کرے جو قوانین پر مکمل عبور رکھتا ہو۔

5 . کمیٹی نے ہدایت دی کہ پی اے او آئندہ 30 دن کے اندر ایک نیا ڈی اے سی اجلاس منعقد کرے تاکہ پاور ڈویژن سے متعلق معاملات پر غور کیا جا سکے اور آئندہ پی اے سی اجلاس میں سیکریٹری پاور ڈویژن کی شرکت یقینی بنائی جائے۔

آڈٹ رپورٹ میں مزید انکشاف کیا گیا کہ مالی سال 23-2022 کے دوران ڈائریکٹوریٹ جنرل (پی سی) نے قدرتی گیس اور خام تیل پر نو ایکسپلوریشن اینڈ پروڈکشن (ای اینڈ پی) کمپنیوں سے 68 بلاکس/فیلڈز کی رائلٹی وصول نہیں کی، جس کے باعث قومی خزانے کو 27.966 ارب روپے کے نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔

انتظامیہ نے جواب دیا کہ اس رقم میں سے 18.325 ارب روپے مختلف کمپنیوں سے وصول کر لیے گئے ہیں، جن میں او جی ڈی سی ایل، یو ای پی ایل، بی او ڈبلیو، اے آر او ایل، زاور، او پی آئی، اسپڈ انرجی، اور او جی آئی ایل شامل ہیں۔ انتظامیہ نے مزید بتایا کہ 27.966 ارب روپے میں سے 20 ارب روپے کی وصولی مکمل کر لی گئی ہے۔

کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر، 2025

Read Comments