امریکا نے ہفتے کے روز یمن کے حوثیوں پر بڑے پیمانے پر فوجی حملے کیے، جن میں کم از کم 31 افراد جاں بحق اور متعدد زخمی ہوگئے۔ یہ کارروائی حوثیوں کے بحیرہ احمر میں جہاز پر حملوں کے جواب میں کی گئی۔ امریکی حکام کا کہنا ہے کہ یہ فوجی آپریشن کئی دن تک جاری رہ سکتا ہے۔
امریکی صدر ٹرمپ نے ایران کو بھی سخت تنبیہ کی اور کہا کہ اگر اس نے حوثیوں کی حمایت جاری رکھی تو سنگین نتائج بھگتنا پڑیں گے۔ انہوں نے اپنی سوشل میڈیا پوسٹ میں لکھا، حوثی دہشت گردوں کے لیے وقت ختم ہو چکا ہے، ان کے حملے آج سے بند ہونے چاہئیں، ورنہ انہیں ایسی تباہی کا سامنا ہوگا جو انہوں نے پہلے کبھی نہیں دیکھی۔
حوثیوں کے زیر انتظام وزارت صحت کے مطابق، امریکی حملوں میں یمن کے دارالحکومت صنعاء میں 13 شہری جاں بحق اور 9 زخمی ہوئے، جب کہ صعدہ میں ایک بجلی گھر پر حملے کے نتیجے میں بجلی کی فراہمی معطل ہوگئی۔
یمنی عوام نے ان حملوں پر شدید ردعمل ظاہر کیا ہے۔ صنعاء کے رہائشی عبداللہ یحییٰ نے بتایا کہ دھماکے بہت شدید تھے اور پورا علاقہ لرز گیا، ہمارے بچے اور خواتین خوفزدہ ہوگئے۔
امریکی سینٹرل کمانڈ نے ان حملوں کو یمن بھر میں ایک بڑے فوجی آپریشن کا آغاز قرار دیا ہے۔ امریکی وزیر دفاع پیٹ ہیگسیٹھ نے ایک بیان میں کہا کہ بحری جہازوں اور امریکی افواج پر حوثی حملے برداشت نہیں کیے جائیں گے، اور ایران پر بھی نظر رکھی جا رہی ہے۔
امریکی محکمہ دفاع (پینٹاگون) کے مطابق حوثیوں نے گزشتہ ایک سال میں امریکی جنگی جہازوں پر 174 اور تجارتی بحری جہازوں پر 145 حملے کیے ہیں۔ حوثی گروہ کا کہنا ہے کہ یہ حملے اسرائیل کے خلاف احتجاج کے طور پر کیے جا رہے ہیں کیونکہ غزہ میں جنگ جاری ہے۔
ایران نے امریکی حملوں کی مذمت کی ہے اور انہیں کھلی جارحیت قرار دیا ہے۔ ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی نے کہا، امریکا کو ایرانی خارجہ پالیسی میں مداخلت کا کوئی اختیار نہیں۔ اگر امریکا یمن میں معصوم شہریوں کا قتل بند نہیں کرتا تو اس کے نتائج خطرناک ہوں گے۔
امریکا اور ایران کے درمیان کشیدگی پہلے ہی عروج پر ہے، اور اقوام متحدہ کے جوہری نگران ادارے انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی نے خبردار کیا ہے کہ ایران یورینیم کی افزودگی میں ڈرامائی طور پر 60 فیصد تک اضافہ کر رہا ہے، جو جوہری ہتھیار بنانے کے قریب ترین سطح ہے۔ تاہم، ایران کا کہنا ہے کہ اس کا جوہری پروگرام مکمل طور پر پرامن مقاصد کے لیے ہے۔
ادھر، حوثیوں نے اعلان کیا ہے کہ وہ اسرائیل کے بحری جہازوں پر حملے دوبارہ شروع کر رہے ہیں، جس سے خطے میں کشیدگی مزید بڑھنے کا امکان ہے۔
بین الاقوامی مبصرین کا کہنا ہے کہ اگر یہ تنازعہ بڑھا تو مشرق وسطیٰ میں ایک نیا بحران پیدا ہوسکتا ہے، جس کے عالمی تجارت اور تیل کی قیمتوں پر بھی گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔