وزیر اعظم شہباز شریف نے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو اپنے 30 ارب ڈالر کے ظاہر شدہ اثاثے وطن واپس لانے کے لیے ایک مراعاتی اسکیم کی تجویز پیش کی ہے۔
یہ انکشاف وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے صنعت و پیداوار ہارون اختر خان نے لاہور چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری میں ایک اجلاس کے دوران کیا۔ انہوں نے کہا کہ سرمایہ کار محفوظ سرمایہ کاری کے مواقع تلاش کرتے ہیں، اور اسی تناظر میں وزیر اعظم شہباز شریف مقامی سرمایہ کاروں کو راغب کرنے کے لیے پرعزم ہیں تاکہ غیر ملکی سرمایہ کاری کو فروغ دیا جا سکے۔
ہارون اختر خان نے مزید کہا کہ حکومت ایک دیوالیہ پن (بینکرپسی) قانون متعارف کرا رہی ہے تاکہ بیمار صنعتی یونٹس کی بحالی کو یقینی بنایا جا سکے۔ انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ کاروباری برادری کے خلاف کسی بھی سرکاری ادارے کو چیمبرز آف کامرس سے مشاورت کے بغیر کارروائی کا اختیار نہیں ہونا چاہیے۔ ان کے مطابق کاروباری طبقے کا اعتماد بحال کرنا اقتصادی ترقی کے لیے ضروری ہے۔
اجلاس میں لاہور چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر میاں ابوذر شاد، نائب صدر شاہد نذیر چوہدری، سابق صدر محمد علی میاں اور سابق سینئر نائب صدر علی حسام اصغر بھی موجود تھے، جبکہ ایگزیکٹو کمیٹی کے ممبران نے بھی شرکت کی۔
ہارون اختر خان نے کہا کہ ملک میں کاروباری سرگرمیوں میں بیوروکریٹک رکاوٹیں حائل ہیں، جہاں 29 سرکاری محکمے ریگولیٹری عمل میں شامل ہیں، جس سے صنعتوں کے لیے کام کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ انہوں نے اس بات پر فخر کا اظہار کیا کہ وزیر اعظم شہباز شریف اور نائب وزیر اعظم اسحاق ڈار، دونوں ماضی میں لاہور چیمبر کے صدر رہ چکے ہیں، جس سے حکومت اور کاروباری برادری کے درمیان قریبی روابط ثابت ہوتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ مارک اپ ریٹ 22 فیصد سے کم ہو کر 12 فیصد ہو چکا ہے، جبکہ اسٹاک مارکیٹ نئی بلندیوں کو چھو رہی ہے۔ تاہم، جی ڈی پی میں اضافے اور صنعتی ترقی پر مزید توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے اس بات پر بھی روشنی ڈالی کہ وزیر اعظم نے بجلی کے نرخوں میں کمی کے لیے کامیاب اقدامات کیے ہیں اور امید ظاہر کی کہ مارک اپ ریٹ مزید کم ہوگا۔
لاہور چیمبر کے صدر میاں ابوذر شاد نے کہا کہ وزیر اعظم کے ساتھ ہونے والی حالیہ ملاقاتیں انتہائی مثبت رہی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ وزیر اعظم نے کاروباری برادری کو یقین دلایا ہے کہ بجلی کی قیمت 30 روپے فی یونٹ تک کم کی جائے گی اور مارک اپ ریٹ میں مزید 2 فیصد کمی کی جائے گی۔ تاہم، انہوں نے کاروباری لاگت میں اضافے پر تشویش کا اظہار کیا، جس میں گیس، بجلی، پیٹرول کی بڑھتی ہوئی قیمتیں اور بند صنعتی یونٹس پر ایم ڈی آئی چارجز شامل ہیں۔ انہوں نے تجویز دی کہ پالیسی ریٹ کو سنگل ڈیجٹ میں لایا جائے تاکہ یہ علاقائی مسابقتی ممالک کے برابر ہو۔
انہوں نے مزید کہا کہ صنعتی علاقوں میں زمین کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں، جو 50 کروڑ روپے فی ایکڑ تک پہنچ چکی ہیں، جس سے صنعتی توسیع مشکل ہو گئی ہے۔ میاں ابوذر شاد نے کئی اہم تجاویز پیش کیں، جن میں پاکستان میں مکمل گاڑیوں کی اسمبلنگ، مقامی خام مال کی صنعتوں کی ترقی، جیسے دھاتیں، اسٹیل، پیٹرو کیمیکل، معدنیات اور ٹیکسٹائل شامل ہیں۔ انہوں نے کم سے کم ڈیوٹی پر ان اشیاء کی درآمد کی تجویز دی تاکہ صنعتی عمل میں رکاوٹیں کم کی جا سکیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ ملک میں برآمدی شعبے کو فروغ دینے کے لیے نئی اسپیشل اکنامک زونز (ایس ای زیڈز) اور ایکسپورٹ پروسیسنگ زونز (ای پی زیڈز) قائم کرنے کی اشد ضرورت ہے، کیونکہ موجودہ صنعتی علاقے اپنی گنجائش مکمل کر چکے ہیں۔ اس مقصد کے لیے ایک 20 سالہ صنعتی ماسٹر پلان تیار کیا جانا چاہیے، جس کے تحت ملک کے ہر ضلع میں صنعتی زون قائم کیے جائیں۔
انہوں نے الیکٹرک وہیکلز (ای ویز) کو فروغ دینے کے لیے خصوصی قرضہ اسکیمیں، چارجنگ اسٹیشنز اور سرکاری خریداری میں الیکٹرک گاڑیوں کو لازمی قرار دینے کی تجویز دی۔ انہوں نے مزید کہا کہ چین کی بڑی کمپنیوں کے ساتھ مشترکہ منصوبوں کے ذریعے پاکستان میں سولر پینل کی مقامی پیداوار کو فروغ دینا چاہیے۔
نائب صدر شاہد نذیر چوہدری نے لاہور کے صنعتی کلسٹرز کو باقاعدہ تسلیم کرنے اور اضافی تبدیلی فیس ختم کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ سابق صدر محمد علی میاں نے مطالبہ کیا کہ لاہور چیمبر کی بجٹ تجاویز کو وفاقی بجٹ میں شامل کیا جائے۔ سابق سینئر نائب صدر علی حسام اصغر نے چاول کے شعبے پر توجہ دینے پر زور دیا، جو پاکستان کی برآمدات میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔
کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر، 2025