انڈس ریور سسٹم اتھارٹی (ارسا) کی جانب سے تربیلا اور منگلا ڈیموں میں پانی کی سطح انتہائی خطرناک حد تک گرنے کے حوالے سے تمام صوبوں کو حالیہ وارننگ میں کہا گیا ہے کہ یہ آبی ذخائر آئندہ چند دنوں میں ڈیڈ لیول پر پہنچ جائیں گے جو آنے والے ہفتوں میں ملک کے زرعی شعبے کو درپیش شدید خطرات کی نشاندہی کرتا ہے۔
گندم کی اہم فصل خاص طور پر ناکافی آبپاشی کے خطرے سے دوچار نظر آتی ہے کیونکہ کسان رواں ماہ کے آخر میں کٹائی سے پہلے اسے آخری پانی دینے کی تیاری کررہے ہیں۔
آئندہ پانی کی شدید کمی آبپاشی کے لیے سنگین خطرہ بن سکتی ہے، جس کے نتیجے میں فصلوں کی تباہی کا خدشہ ہے۔ یہ صورتحال خوراک کی کمی اور ان علاقوں میں اقتصادی عدم استحکام کے خطرات کو بڑھا سکتی ہے جو گندم کی پیداوار پر بہت زیادہ انحصار کرتے ہیں۔
خاص طور پر پنجاب اور سندھ سب سے زیادہ خطرے میں ہیں، ارسا نے رواں ربیع سیزن کے آخری مراحل کے دوران دونوں صوبوں میں 30 سے 35 فیصد تک پانی کی کمی کی اطلاع دی ہے۔
تازہ ترین ارسا ڈیٹا کے مطابق تربیلا ڈیم میں صرف 73 ہزار ایکڑ فٹ پانی باقی ہے، جبکہ اس کی سطح 1,409 فٹ پر ہے، جو خطرناک ڈیڈ لیول 1,400 فٹ سے محض 9 فٹ اوپر ہے۔
دوسری جانب منگلا ڈیم میں قابلِ استعمال پانی کا ذخیرہ 2 لاکھ 35 ہزار ایکڑ فٹ ہے جبکہ اس میں پانی کی سطح 1088 فٹ ریکارڈ کی گئی ہے جو اس کے ڈیڈ لیول 1,060 فٹ سے صرف 28 فٹ زیادہ ہے۔ قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ واٹر ریگولیٹر نے اکتوبر میں پیشگوئی کی تھی کہ یہ ڈیمز سرما کی فصل کے اختتام تک اپنے ڈیڈ لیول تک پہنچ جائیں گے۔
درحقیقت پانی کی قلت سے متعلق ایسی پیشگوئیاں اور وارننگز ربیع اور خریف دونوں سیزن کے آغاز پر ایک معمول بن چکی ہیں جو ملک کی طویل المدتی آبی سلامتی اور زرعی پائیداری کے حوالے سے سنگین خدشات کو جنم دیتی ہیں۔
گزشتہ چند برسوں میں کم ہوتی اور غیر متوقع بارشوں، تیزی سے پگھلتے گلیشیئرز، اور ناقص آبی انتظام جیسے ناکافی ذخیرہ و تقسیم کے نظام اور پرانے آبپاشی طریقوں، خصوصاً بے جا پانی ضائع کرنے والی روایتی فلڈ اِریگیشن پر انحصار، نے پانی کی قلت کے مسائل کو مزید سنگین بنا دیا ہے۔
مزید برآں تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کے باعث پانی کی طلب میں اضافہ اور موسمیاتی تبدیلی کے نتیجے میں بارش کے وقت، شدت اور مقام میں رد و بدل نے مؤثر آبی وسائل کے انتظام کو ایک پیچیدہ اور مسلسل بدلتا ہوا چیلنج بنا دیا ہے۔ اس صورتحال میں پانی کی دستیابی کی درست پیشگوئی اور پائیدار استعمال کی منصوبہ بندی نہایت مشکل ہو گئی ہے جس سے زرعی اور شہری دونوں آبی نظاموں پر مزید دباؤ بڑھ رہا ہے۔
حالیہ رپورٹس میں مستقبل کے دریا کے بہاؤ کے حوالے سے بھی تشویشناک منظرنامہ پیش کیا گیا ہے، کیونکہ موسمیاتی تبدیلی قدرتی آبی سائیکل کو شدید متاثر کرنے کے دہانے پر ہے۔ اسی تناظر میں، نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) کے چیئرمین نے گزشتہ سال ایک کانفرنس میں نہایت تشویشناک حقائق کا انکشاف کیا تھا: نومبر 2023 سے اپریل 2024 کے دوران ملک کے برفانی رقبے میں 23.3 فیصد کمی واقع ہوئی، سالانہ گلیشیئر پگھلنے کی شرح تین فیصد رہی، اور سب سے چونکا دینے والی بات یہ تھی کہ گزشتہ پانچ سالوں میں پاکستان کے گلیشیئرز کا 16 فیصد حصہ ضائع ہو چکا ہے۔
اگرچہ گلیشیئرز کے پگھلنے سے عارضی طور پر پانی کی مقدار میں اضافہ ہوتا ہے، لیکن طویل المدتی نتائج نہایت سنگین ہیں، جو میٹھے پانی کی دستیابی کو متاثر کرنے، آبادیوں کی نقل مکانی اور قدرتی ماحولیاتی نظام میں بگاڑ کا باعث بنتے ہیں۔
لیونگ انڈس انیشی ایٹو، جس کا ہدف 2030 تک دریائے سندھ کے طاس کے 30 فیصد سے زیادہ حصے کو بحال کرنا ہے، اور یو این ڈی پی کا گلیشیئر جھیل پھٹنے کا سیلاب منصوبہ جیسے پروگرام، اگرچہ اہم ہیں، طویل مدتی نوعیت کے ہیں اور ان میں ایسے اقدامات کے ذریعے اضافہ کیا جانا چاہئے جن کا زراعت کی لچک اور آبی تحفظ پر فوری اثر پڑے۔
وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو مربوط حکمتِ عملیاں وضع کرنی چاہئیں، جو آب پاشی کے جدید طریقوں اور زرعی ٹیکنالوجیز کو ترجیح دیں تاکہ پانی کے ضیاع کو کم کیا جاسکے اور زراعت میں پانی کے مؤثر استعمال کو یقینی بنایا جاسکے۔
مزید برآں پانی کے تحفظ، گندے پانی کی صفائی، بارش کے پانی کے ذخیرے، اور سمندری پانی کو قابلِ استعمال بنانے والی ٹیکنالوجیز میں سرمایہ کاری کو بھی ترجیح دی جانی چاہیے۔
آخر میں ارسا اور دیگر سرکاری اداروں کو یہ یقینی بنانا چاہیے کہ صوبوں کے درمیان پانی کی تقسیم سے متعلق ان کے فیصلے منصفانہ ہوں اور کسی بھی صوبے، خصوصاً زیریں دریا والے صوبے جیسے سندھ کے مفادات کو نقصان نہ پہنچے، جو پانی کی قلت کے خطرے سے سب سے زیادہ دوچار ہے۔
کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر، 2025