اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) نے شرح سود کو 12 فیصد پر برقرار رکھا ہے۔ مرکزی بینک گزشتہ 8 ماہ میں پالیسی ریٹ میں 1000 بیسس پوائنٹس کی کمی کرچکا ہے اور اس کے اثرات ابھی تک ظاہر ہورہے ہیں۔
اگرچہ مہنگائی بڑھنے کی شرح میں تیزی سے کمی واقع ہورہی ہے لیکن اسٹیٹ بینک نے ادائیگیوں کے توازن (بی او پی) پر دباؤ کے پیش نظر فی الحال شرح سود کو برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ پالیسی بیان میں کہا گیا ہے کہ ایم پی سی نے میکرو اکنامک استحکام کو برقرار رکھنے کے لئے موجودہ حقیقی شرح سود کا جائزہ لیا ہے۔
امکان ہے کہ اسٹیٹ بینک کم از کم جون تک پالیسی ریٹ کو 12 فیصد پر برقرار رکھے گا۔ آئندہ چند ماہ میں اب تک کی نمایاں نرمی کے باعث طلب میں مسلسل اضافے کی توقع ہے۔
مالی صورتحال مزید واضح ہوجائے گی اور آئندہ سال کا بجٹ جائزے کیلئے دستیاب ہوگا۔ امریکی ٹیرف پالیسیوں کے عالمی اثرات بھی نمایاں ہونے لگیں گے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ اسٹیٹ بینک کسی مزید کٹوتی پر غور کرنے سے پہلے زرمبادلہ ذخائر میں بہتری کی صورت میں کچھ حفاظتی اقدامات حاصل کرلے گا۔
مانیٹری پالیسی بیان میں محتاط رویہ اپنانے کی مختلف وجوہات بیان کی گئی ہیں، جن میں بنیادی مہنگائی کا برقرار رہنا، معاشی سرگرمیوں میں بہتری اور جاری ٹیرف جنگوں کے باعث بڑھتی ہوئی بین الاقوامی غیر یقینی صورتحال شامل ہیں۔
تاہم سب سے بڑی وجہ اسٹیٹ بینک کے زرمبادلہ ذخائر میں کمی ہے جو بیرونی کھاتے پر بڑھتے ہوئے دباؤ، یعنی ادائیگیوں کے توازن میں جاری کھاتے اور مالی کھاتے دونوں میں بگاڑ کا نتیجہ ہے۔
اسٹیٹ بینک کے زرمبادلہ ذخائر 2023 کے اوائل میں 3 ارب ڈالر کی کم ترین سطح سے بڑھ کر نومبر 2024 تک 12 ارب ڈالر تک پہنچ گئے۔ اس کے ساتھ ہی، بنیادی مالیاتی فاضل کو برقرار رکھتے ہوئے مہنگائی میں نمایاں کمی آئی، جس نے اسٹیٹ بینک کو پالیسی ریٹ میں بڑے پیمانے پر کمی کرنے کا اعتماد دیا۔
تاہم گزشتہ دو ماہ میں جاری اور مالی کھاتوں میں منفی مالیاتی بہاؤ کے باعث زرمبادلہ ذخائر میں 800 ملین ڈالر کی کمی واقع ہوئی جس کے پیش نظر اسٹیٹ بینک نے محتاط رویہ اختیار کرلیا ہے۔
اسٹیٹ بینک کا بنیادی مقصد قیمتوں کا استحکام برقرار رکھنا اور مہنگائی کو درمیانی مدت کے 5 سے7 فیصد ہدف کے دائرے میں رکھنا ہے۔ اس کیلئے بیرونی استحکام ضروری ہے، کیونکہ اگر یہ نہ ہو تو کرنسی غیر مستحکم ہو سکتی ہے، جس سے مہنگائی بے قابو ہو سکتی ہے۔ اسی وجہ سے بیرونی کھاتے کا استحکام سب سے زیادہ اہم ہے۔
اگرچہ مجموعی مہنگائی کم ہورہی ہے لیکن بنیادی مہنگائی اب بھی برقرار ہے اور اسی رفتار سے کم نہیں ہورہی۔ 2023 میں مہنگائی میں اضافہ اور 2025 میں کمی دراصل توانائی اور خوراک کی قیمتوں میں شدید اتار چڑھاؤ کا نتیجہ ہے۔
فروری میں مہنگائی بڑھنے کی شرح 1.5 فیصد تک گرنے کی بنیادی وجہ خراب ہونے والی خوراک کی قیمتوں میں نمایاں کمی تھی۔ تاہم، چونکہ بنیادی مہنگائی اب بھی بلند ہے، اس لیے اگر خوراک کی یہ قیمتیں دوبارہ بڑھیں تو مجموعی مہنگائی بڑھنے کی شرح میں پھر سے اضافہ ہو سکتا ہے۔ اسی کو قابو میں رکھنے کیلئے اسٹیٹ بینک نے فی الحال پالیسی ریٹ میں کوئی تبدیلی نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ معاشی سرگرمیاں تیزی سے بحال ہورہی ہیں، جس کا ثبوت ہائی فریکوئنسی ڈیٹا، درآمدات میں اضافہ اور بڑے شہری مراکز میں نائٹروجن آکسائیڈ (این او 2) کی بڑھتی ہوئی سطح ہے۔ تاہم، جی ڈی پی کی شرح نمو اس رفتار کو مکمل طور پر ظاہر نہیں کرتی کیونکہ زرعی شعبہ ابھی تک منفی رجحان کا شکار ہے۔
مانیٹری پالیسی میں 1000 بیسس پوائنٹس کی نرمی کے اثرات آئندہ چند ماہ تک جاری رہیں گے۔ کاروباری اور صارفین کے رویے میں تبدیلی آ رہی ہے—سرمایہ کاری کا رجحان بڑھ رہا ہے، کاروبار بی ایم آر (بیلنسنگ، ماڈرنائزیشن، اور ریپلیسمنٹ) پر غور کر رہے ہیں، اور صارفین اضافی اخراجات کی طرف مائل ہو رہے ہیں۔
یہ عوامل درآمدات اور مہنگائی پر دباؤ بڑھائیں گے۔ اسٹیٹ بینک کا پالیسی ریٹ برقرار رکھنا اس رویے کی تبدیلی کو سست کرنے کی کوشش ہے۔ اس کے علاوہ، مرکزی بینک مالی صورتحال کا بھی جائزہ لے رہا ہے، جہاں ٹیکس آمدن کم ہو رہی ہے اور پورے سال کے لیےبنیادی سرپلس ہدف حاصل کرنا مزید مشکل ہوتا جا رہا ہے۔
آئندہ سال کے بجٹ فریم ورک پر آئی ایم ایف (بین الاقوامی مالیاتی فنڈ) کے ساتھ مذاکرات جاری ہیں اور اسٹیٹ بینک کسی بھی اقدام سے قبل حتمی بجٹ کا جائزہ لینا چاہے گا۔ تب تک مالیاتی نرمی کے طلب پر اثرات زیادہ واضح ہو جائیں گے، اور ممکنہ کامیاب آئی ایم ایف جائزے اور ریٹنگ میں بہتری کے بعد مالیاتی کھاتوں میں آمد کا کچھ اضافہ بھی ہوسکتا ہے۔
جیسے ہی زرمبادلہ ذخائر دوبارہ بڑھنے لگیں گے اور اسٹیٹ بینک کے مقررہ ہدف 13 ارب ڈالر سے تجاوز کر جائیں گے، آئندہ مالی سال کی پہلی ششماہی میں مزید ایک یا دو بار شرح سود میں کمی کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا— خاص طور پر اگر امریکہ میں ممکنہ کساد بازاری سے بیرونی اقتصادی صورتحال میں بہتری آئے۔
کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر، 2025