پاکستان کے معاشی حب کراچی میں رمضان المبارک کے دوران دیگر اشیائے خور و نوش کی قیمتیں بڑھنے کے ساتھ ساتھ چینی کی قیمتوں میں بھی ہوشربا اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔
گزشتہ دو ماہ میں مقامی مارکیٹ میں چینی کی قیمتوں میں 40 روپے تک اضافہ دیکھا گیا ہے اور اب چینی 180 روپے فی کلو فروخت کی جارہی ہے۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ گزشتہ ماہ وزارت صنعت و پیدوار نے اپنے اجلاس میں فیصلہ کیا تھا کہ حکومت ملک بھر میں تحصیل کی سطح پر اسٹالز لگائی گی جس میں چینی رعایتی نرخ پر فروخت کی جائے گی۔
وزیر صنعت و پیداوار رانا تنویر حسین کی زیر صدارت شوگر ایڈوائزری بورڈ کے اجلاس میں فیصلہ ہوا تھا کہ حکومتی اسٹالز پر فی کلو چینی 130 روپے کے رعایتی نرخ پر فروخت کی جائے گی۔
اس ضمن میں کراچی ریٹیل گروسرز گروپ کے صدر فرید قریشی کا کہنا تھا کہ سندھ گورنمنٹ چینی کے نرخ طے کرے تاکہ عوام اور ریٹیلرز کو پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ہم مہنگے دام چینی فروخت کرنا نہیں چاہتے تاہم ہمیں تھوک مارکیٹ سے ہی چینی مہنگی مل رہی ہے تو ہم چینی سستی کیسے فروخت کرسکتے ہیں۔
انہوں نے کمشنر کراچی سے بھی شکوہ کرتے ہوئے کہاکہ ضلع حکومت خوردہ فروشوں پر تو جرمانے لگارہی ہے تاہم تھوک مارکیٹ کو لگام نہیں ڈال رہی۔
بزنس ریکارڈر کے رابطہ کرنے پر کراچی ہول سیل گروسر ایسوسی ایشن کے صدر عبدالرؤف ابراہیم نے بتایا کہ حکومت نے کرشنگ کے اعداد و شمار لیے بغیر ہی چینی ایکسپورٹ کرنے کا اعلان کیا جس کے بعد شوگر کاٹل مافیا اور سٹہ مافیا سرگرم ہوئے ۔
ایسوسی ایشن کے صدر کا کہنا تھا کہ چینی کی ایکسپورٹ کی اجازت کی آڑ میں ذخیرہ اندوز فائدہ اٹھارہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ چینی کی ایکسپورٹ پر فی الفور پابندی عائد کی جائے اور ڈیوٹی فری امپورٹ شروع کی جائے۔
عبدالرؤوف ابراہیم کا کہنا تھا کہ مافیہ نے 115 روپے فی کلو چینی خرید کر گوداموں میں ذخیرہ کر رکھی ہے۔ انہوں نے حیرانگی کا اظہار کرتے ہوئے بتایا کہ آئندہ سیزن میں نو ماہ باقی ہیں اور ابھی سے مصنوعی قلت پیدا ہو گئی ہے۔
ایسوسی ایشن کے صدر کا کہنا تھا کہ اگر حکومت اقدامات کرے تو چینی کی قیمت 125 روپے فی کلو تک کم ہوسکتی ہے۔
وزیر اعظم شہباز شریف نے گزشتہ دسمبر میں کہا تھا کہ پاکستان نے اضافی چینی کی برآمد سے 500 ملین ڈالر کمائے ہیں۔
گزشتہ سال جون میں پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن (پی ایس ایم اے) نے تجویز دی تھی کہ حکومت پہلے مرحلے میں 10 لاکھ ٹن تک ریفائنڈ چینی برآمد کرنے کی اجازت دے جس سے ملک کو 650 سے 700 ملین ڈالر کا زرمبادلہ حاصل ہوگا اور باقی 0.6 ملین ٹن چینی دو مرحلوں میں برآمد کی جائے گی۔
قبل ازیں وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے منگل پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ سرحد پار اسمگلنگ کے خلاف سخت اقدامات کی وجہ سے چینی افغانستان اسمگل کرنے کے بجائے برآمد کی جا رہی ہے۔
وفاقی وزیر اطلاعات عطاء اللہ تارڑ کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ پہلا موقع ہے کہ چینی افغانستان اسمگل نہیں کی گئی ہے اور یہ برآمد کی جارہی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ملک کو اپنے کرنٹ اکاؤنٹ کو متوازن کرنے کے لئے ”ہر ایک ڈالر“ کی ضرورت ہے۔