خام تیل کی قیمتوں میں پیر کو کمی ریکارڈ کی گئی کیونکہ امریکی درآمدی محصولات کے عالمی اقتصادی ترقی اور ایندھن کی طلب پر ممکنہ منفی اثرات کے خدشات بڑھ گئے ہیں ۔ اس کے علاوہ، اوپیک پلس ممالک کی جانب سے پیداوار میں اضافے کے باعث سرمایہ کاروں کی زیادہ خطرے والے اثاثوں میں دلچسپی کم ہو گئی، جس نے قیمتوں پر مزید دباؤ ڈال دیا۔
برینٹ کروڈ 25 سینٹ یا 0.4 فیصد کی کمی سے 70.11 ڈالر فی بیرل پر آگیا۔
امریکی ویسٹ ٹیکساس انٹرمیڈیٹ خام تیل 28 سینٹ یا 0.4 فیصد کی کمی سے 66.76 ڈالر فی بیرل پر ریکارڈ کیا گیا۔
ویسٹ ٹیکساس انٹرمیڈیٹ (ڈبلیو ٹی آئی) مسلسل ساتویں ہفتے کمی کا شکار رہا، جو نومبر 2023 کے بعد اس کی طویل ترین گراوٹ ہے، جبکہ برینٹ تیل مسلسل تیسرے ہفتے نیچے آیا۔ اس کی وجہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے اپنے اہم تیل فراہم کنندگان، کینیڈا اور میکسیکو پر پہلے محصولات عائد کرنا اور پھر مؤخر کرنا، جبکہ چینی مصنوعات پر ٹیکس بڑھانا بنی۔
چین نے امریکہ اور کینیڈا کے خلاف جوابی کارروائی کرتے ہوئے زرعی مصنوعات پر محصولات عائد کر دیے۔
آئی جی کے تجزیہ کار ٹونی سائی کامور نے ایک کلائنٹ نوٹ میں کہا کہ گزشتہ ہفتے خام تیل کی قیمتوں پر امریکی محصولات سے متعلق غیر یقینی صورتحال، امریکی معاشی نمو کے خدشات، روس پر امریکی پابندیاں ہٹانے کے امکان اور اوپیک پلس کی جانب سے پیداوار بڑھانے کے فیصلے کا دباؤ رہا۔“
انہوں نے ڈبلیو ٹی آئی کی قیمت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ تاہم، زیادہ تر منفی خبریں پہلے ہی قیمتوں میں شامل ہو چکی ہیں، اس لیے ہم توقع کرتے ہیں کہ ہفتہ وار سپورٹ 65 سے 62 ڈالر کے قریب مستحکم رہے گی، جس کے بعد قیمت 72 ڈالر تک بحال ہو سکتی ہے۔
یاد رہے کہ جمعہ کو خام تیل کی قیمتوں میں کچھ کمی واقع ہوئی جب ٹرمپ نے کہا کہ اگر روس یوکرین کے ساتھ جنگ بندی پر متفق نہ ہوا تو امریکہ اس پر مزید پابندیاں عائد کرے گا۔
دو باخبر ذرائع نے رائٹرز کو بتایا کہ اگر روس یوکرین کے ساتھ جنگ ختم کرنے پر آمادہ ہو جاتا ہے تو امریکہ اس کے توانائی کے شعبے پر عائد پابندیاں نرم کرنے کے ممکنہ طریقوں کا جائزہ لے رہا ہے۔
دریں اثنا، تیل برآمد کرنے والے ممالک کی تنظیم (اوپیک) اور اس کے اتحادی، بشمول روس، جو مشترکہ طور پر اوپیک پلس کہلاتے ہیں، نے اعلان کیا کہ وہ اپریل سے تیل کی پیداوار میں اضافے کے فیصلے پر عمل درآمد کریں گے۔
روس کے نائب وزیر اعظم الیگزینڈر نوواک نے جمعہ کو کہا تھا کہ اوپیک پلس مارکیٹ میں عدم توازن کی صورت میں اپنا فیصلہ واپس لے سکتا ہے۔
گزشتہ ہفتے ٹرمپ نے کہا کہ وہ اوپیک کے رکن ملک ایران کے ساتھ ایک معاہدہ کرنا چاہتے ہیں تاکہ اسے جوہری ہتھیار حاصل کرنے سے روکا جا سکے— اگرچہ ایران پہلے ہی کہہ چکا ہے کہ وہ ایسے ہتھیار حاصل کرنے کی کوشش نہیں کر رہا۔
امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان کا کہنا ہے کہ ٹرمپ ایران کے خلاف ’زیادہ سے زیادہ دباؤ‘ کی مہم جاری رکھے ہوئے ہے جس کے تحت امریکہ نے ہفتے کو وہ استثنیٰ واپس لے لیا جس کے تحت عراق کو ایران کو بجلی کی ادائیگی کی اجازت دی گئی تھی۔
ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے کہا ہے کہ ان کے ملک کو مذاکرات کے لیے مجبور نہیں کیا جائے گا۔