کیپیٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) میں مالی بدانتظامی اور شفافیت کے فقدان سے متعلق حالیہ انکشافات اسلام آباد کی شہری انتظامیہ کی گہری بدنظمی کو بے نقاب کرتے ہیں۔
پبلک اکاؤنٹس کمیٹی (پی اے سی) کی جانب سے سی ڈی اے کے مالی معاملات کی جانچ پڑتال میں کمرشل پلاٹس کی نیلامی میں 37 ارب روپے کی بے ضابطگیاں سامنے آئی ہیں، جو اس ادارے میں برسوں سے جاری عدم شفافیت اور احتساب سے فرار کی واضح مثال ہیں۔
اس اسکینڈل کا سب سے پریشان کن پہلو نہ صرف نیلامیوں کا غیر شفاف ہونا ہے بلکہ یہ حقیقت بھی ہے کہ سی ڈی اے نے آج تک اپنی مالیاتی رپورٹس تیار ہی نہیں کیں، حالانکہ وہ سی ڈی اے ایکٹ کے تحت ایسا کرنے کا پابند ہے۔ یہ امر حیران کن ہے کہ ایک ایسا سرکاری ادارہ، جو اربوں روپے کے عوامی اثاثوں کا نگران ہے، کئی دہائیوں سے بنیادی مالیاتی رپورٹنگ کے بغیر کام کر رہا ہے۔ یہ ایک دانستہ اقدام معلوم ہوتا ہے، جس کے ذریعے احتساب سے بچنے کی کوشش کی گئی اور پے در پے آنے والی حکومتوں نے اس قانونی خلاف ورزی سے نظریں چرا رکھی ہیں۔
پی اے سی کے خدشات بالکل درست ہیں۔ آڈٹ رپورٹ میں انکشاف ہوا کہ سی ڈی اے بورڈ نے 29 کمرشل پلاٹس کی نیلامی کی منظوری دی تھی، مگر عملی طور پر صرف 22 پلاٹس نیلام کیے گئے، جبکہ پانچ نیلامیاں ملتوی کر دی گئیں اور ایک پلاٹ قانونی پیچیدگیوں کا شکار ہوگیا۔
یہ سوال ہنوز جواب طلب ہے کہ نیلامی سے قبل ان مسائل کا اندازہ کیوں نہیں لگایا گیا؟ اس سے نیلامی کے پس پردہ ہونے والی ممکنہ گڑبڑ کے شبہات مزید مضبوط ہوتے ہیں۔ ایسی بے ضابطگیاں یا تو انتہائی درجے کی نااہلی کی نشاندہی کرتی ہیں یا پھر کھلی بدعنوانی کی—اور بظاہر ان دونوں کا امتزاج نظر آتا ہے۔
اس بحران میں سب سے قابل مذمت پہلو سی ڈی اے کے چیئرمین محمد علی رندھاوا کا آڈٹ حکام کے ساتھ تحقیر آمیز رویہ ہے۔ ان کا جواب، جس میں انہوں نے محض رپورٹ پڑھنے کا کہہ کر اعتراضات کو مسترد کر دیا، اس بیوروکریٹک تکبر کی عکاسی کرتا ہے جس نے اس ادارے میں بدانتظامی کو پروان چڑھایا ہے۔ ان کی بعد ازاں معذرت اس حقیقت کو نہیں بدل سکتی کہ اعلیٰ سرکاری افسران اکثر جوابدہی کے اصولوں کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ پی اے سی اراکین کی جانب سے ان کے رویے پر کی گئی تنقید بالکل جائز ہے، لیکن اصل سوال یہ ہے کہ کیا اس معاملے میں کوئی عملی اقدامات کیے جائیں گے؟
ایسی بدانتظامی کے وسیع تر اثرات انتہائی سنگین ہیں۔ پہلے ہی پاکستان کا رئیل اسٹیٹ سیکٹر عدم شفافیت، قیاس آرائیوں اور سیاسی مداخلت کا شکار ہے۔ جب ملک کی سب سے بڑی شہری اتھارٹی بنیادی مالیاتی اصولوں پر بھی عمل نہیں کرتی تو یہ ایک خطرناک مثال قائم کرتی ہے۔
سرکاری اراضی کی نیلامیوں کی ساکھ خطرے میں ہے اور اس کے ساتھ ساتھ سرمایہ کاروں کا اعتماد بھی متزلزل ہو سکتا ہے۔ اگر خریدار سی ڈی اے کے تحت ہونے والے لین دین کو شفاف نہیں سمجھیں گے، تو یہ اعتماد کی اس کمزور ہوتی فضا کو مزید نقصان پہنچائے گا، جو پہلے ہی ملکی معیشت کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے۔
پی اے سی کا سی ڈی اے کو چھ ماہ میں مالیاتی گوشوارے جمع کرانے کا حکم دینا ایک ضروری، مگر تاخیر سے اٹھا گیا اقدام ہے۔ تاہم، صرف ڈیڈ لائن دینا کافی نہیں۔
جب تک اس حکم پر سختی سے عمل درآمد، قانونی کارروائی اور مستقل نگرانی نہیں کی جاتی، یہ ہدایت محض ایک اور بیوروکریٹک مشق بن کر رہ جائے گی، جس کا کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوگا۔
سی ڈی اے کو نہ صرف اس ڈیڈ لائن پر پورا اترنا ہوگا بلکہ آئندہ بھی مالیاتی رپورٹس کو باقاعدگی سے شائع کرنا ہوگا اور انہیں آزادانہ طور پر آڈٹ کرانا ہوگا۔
پاکستان کی طرز حکمرانی میں ناکامی اکثر ادارہ جاتی احتساب کی کمزوری کا نتیجہ ہوتی ہے، اور سی ڈی اے کا معاملہ اس کی کلاسیکی مثال ہے کہ بیوروکریسی کی سست روی کس طرح مالیاتی بدانتظامی کو فروغ دیتی ہے۔ اگر اس تحقیقات کے نتیجے میں حقیقی اصلاحات متعارف نہ کروائی گئیں—جیسے کہ قانون کی خلاف ورزی پر سخت سزائیں اور سی ڈی اے کے مالیاتی امور میں شفافیت کے لیے جامع اصلاحات—تو اس سے یہی تاثر پختہ ہوگا کہ پاکستان میں احتساب صرف کمزوروں کے لیے ہے، جبکہ طاقتور طبقہ ہمیشہ بچ نکلتا ہے۔
پی اے سی کو انکشافات کو بیوروکریسی کی گرد و غبار میں دفن ہونے کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے۔ پارلیمنٹ، عدلیہ اور سول سوسائٹی کو اس معاملے پر مسلسل شفافیت کے نفاذ کا مطالبہ کرنا چاہیے۔
سی ڈی اے کی بے لگام آزادی کا صرف ڈیڈ لائنز اور معذرتوں سے خاتمہ نہیں ہوگا، بلکہ ان لوگوں کے خلاف ٹھوس قانونی کارروائی سے ممکن ہوگا جو دہائیوں سے مالیاتی بدانتظامی کے مرتکب ہو رہے ہیں۔
اگر ایسا نہ کیا گیا تو اگلی آڈٹ رپورٹ میں اس سے بھی بڑا اسکینڈل سامنے آنا یقینی ہے۔