زیادہ تر تجزیہ کاروں کی پیشگوئی ہے کہ پاکستان کا مرکزی بینک پیر کو مسلسل ساتویں مرتبہ شرح سود میں کمی کرے گا، کیونکہ ملک اپنے 7 ارب ڈالر کے بیل آؤٹ کے لیے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے پہلے جائزے اور تقریباً ایک دہائی کی کم ترین مہنگائی بڑھنے کی شرح کا سامنا کررہا ہے۔
پاکستان کے مرکزی بینک کا موجودہ نرمی کا سلسلہ، جو ابھرتی ہوئی منڈیوں میں سب سے زیادہ جارحانہ سمجھا جا رہا ہے، پچھلے چھ مہینوں میں شرح سود میں مجموعی طور پر 1000 بیسس پوائنٹس (بی پی ایس) کی کمی پر مشتمل ہے جس نے شرح سود کو جون میں 22 فیصد کی ریکارڈ سطح سے کم کرکے 12 فیصد تک پہنچا دیا، جبکہ جنوری میں آخری 100 بیسس پوائنٹس کی کٹوتی کی گئی۔
پاکستان آئی ایم ایف پروگرام کے تحت اقتصادی اصلاحات سے گزر رہا ہے اور جاری جائزے کے نتائج پر منحصر ہے کہ اسے عالمی قرض دہندہ سے اضافی فنڈنگ حاصل ہو سکتی ہے۔
مالی مشکلات کے شکار جنوبی ایشیائی ملک کیلئے فنڈنگ کی قسط حاصل کرنے کا امکان ہے، اگر جاری جائزے کی منظوری مل جاتی ہے جب کہ جون میں متوقع سالانہ بجٹ پیش کرنے کی تیاری جاری ہے۔
فروری میں مہنگائی بڑھنے کی شرح تقریباً ایک دہائی کی کم ترین سطح 1.5 فیصد رہی جس کی بنیادی وجہ گزشتہ سال کا بلند موازنہ ہے۔
رائٹرز کے 14 تجزیہ کاروں کے ایک سروے کے مطابق مرکزی بینک شرح سود میں مزید کمی کرسکتا ہے جس کی اوسط پیشگوئی 50 بیسس پوائنٹس کی کمی ہے۔
شرح سود میں کمی کی توقع رکھنے والے 10 تجزیہ کاروں میں سے 3 نے 100 بیسس پوائنٹس، ایک نے 75 بیسس پوائنٹس اور6 نے 50 بیسس پوائنٹس کی کمی کی پیشگوئی کی ہے جبکہ باقی 4 تجزیہ کاروں نے کسی تبدیلی کی توقع نہیں کی۔
شرح سود میں کٹوتی کی پیش گوئی کرنے والے زیادہ تر تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ جب شرح 10.5 سے11 فیصد تک پہنچ جائیں گی تو مرکزی بینک افراط زر میں کمی روک دے گا جس کی وجہ افراط زر میں ممکنہ اضافہ ہے اور وہ مارچ سے مئی کے دوران مہنگائی میں معتدل اضافے کی توقع رکھتے ہیں۔
ایس اینڈ پی گلوبل کے سینئر ماہرِ معیشت احمد مبین کا کہنا ہے کہ مہنگائی رواں سال کی پہلی سہ ماہی میں کم ترین سطح پر پہنچنے کے بعد بتدریج بڑھے گی۔
انہوں نے 2025 کے لیے اوسط مہنگائی کی شرح 6.1 فیصد رہنے کی پیشگوئی کی ہے۔ اگرچہ کنزیومر پرائس انڈیکس میں تیزی سے کمی آئی ہے، تاہم وہ نوٹ کرتے ہیں کہ شہری بنیادی مہنگائی، جو مسلسل قیمتوں کے دباؤ کی عکاسی کرتی ہے، اب بھی 7.8 فیصد پر برقرار ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایس اینڈ پی گلوبل ایچ بی ایل پاکستان مینوفیکچرنگ پی ایم آئی بھی بڑھتے ہوئے پیداواری لاگت کے اشارے دے رہا ہے، جس کے نتیجے میں فروری 2025 میں مینوفیکچررز نے اکتوبر 2024 کے بعد تیز ترین رفتار سے قیمتوں میں اضافہ کیا۔
پچھلی پالیسی میٹنگ میں، مرکزی بینک نے پورے سال کے لیے جی ڈی پی کی شرح نمو 2.5 فیصد سے 3.5 فیصد برقرار رکھی اور پیشگوئی کی کہ تیز تر معاشی ترقی ملک کے پہلے سے مشکلات کے شکار زرمبادلہ ذخائر میں بہتری لانے میں مدد دے گی۔
مالی سال 2025 کی پہلی سہ ماہی میں جی ڈی پی میں 0.9 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا، لیکن بڑے پیمانے پر مینوفیکچرنگ منفی علاقے میں ہے، اور پیداوار میں ابھی تک تیزی نہیں آئی ہے۔ عارف حبیب لمیٹڈ میں ریسرچ کی سربراہ ثنا توفیق نے کہا کہ کم شرح سود کے اقتصادی سرگرمیوں پر اثرات ابھی دیکھنے باقی ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ یہ ہدف صرف اسی صورت میں حاصل کیا جا سکتا ہے اگر صنعتی سرگرمیوں میں بہتری آئے اور زرعی پیداوار میں اضافہ ہو۔