حد سے زیادہ بڑی کابینہ

03 مارچ 2025

اگرچہ زیادہ تر پاکستانی، خاص طور پر کم آمدنی والے طبقے، تنخواہ دار طبقہ اور کارپوریٹ سیکٹر، بھاری ٹیکسز کی شرح، اشیائے ضروریہ کی بلند قیمتوں اور قوت خرید میں مجموعی طور پر کمی کی صورت میں شدید معاشی مشکلات کا شکار ہیں، لیکن حکومت یا تو ان کی مشکلات سے لاتعلق نظر آتی ہے یا جان بوجھ کر نظر انداز کررہی ہے۔

اس کا ثبوت 27 فروری کو وفاقی کابینہ کا حجم دگنا کرنے کے غیر ذمہ دارانہ فیصلے سے ملتا ہے۔

کابینہ میں 12 وفاقی وزراء، 9 وزرائے مملکت، 3 مشیر اور وزیراعظم کے 4 معاونین خصوصی شامل ہوئے ہیں جس کے بعد کابینہ کے ارکان کی مجموعی تعداد 51 ہوگئی ہے۔

یہ واضح ہے کہ کابینہ کا حجم بڑھانے سے سرکاری اخراجات میں براہ راست اضافہ ہوگا، کیونکہ اضافی وزراء، مشیروں اور ان کے عملے کی تنخواہیں، مراعات اور عملی اخراجات حکومتی مالی وسائل پر مزید بوجھ ڈالیں گے، جو پہلے ہی دباؤ کا شکار ہیں۔ یہ فیصلہ ماضی میں کی گئی کفایت شعاری اور حکومت کے حجم کو کم کرنے کے وعدوں کی کھلی خلاف ورزی بھی ہے، جو حکمران طبقے کو معاشی بوجھ میں شریک کرنے کے قابل بنا سکتے تھے۔

لہٰذا، حکومت کے اس مالی طور پر غیر ذمہ دارانہ اقدام سے ایک تشویشناک پیغام ملتا ہے— کہ اقتدار میں موجود افراد عوام سے قربانیوں کا مطالبہ تو کرتے ہیں، مگر خود اپنی مراعات بڑھانے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے۔

حقیقت یہ ہے کہ ملک پہلے ہی بجٹ کے توازن کو برقرار رکھنے کی مستقل جدوجہد میں مبتلا ہے۔ اس کی ٹیکس آمدن بمشکل قرضوں کی ادائیگی اور دفاعی اخراجات کو پورا کرتی ہے جب کہ حکومت کو اپنے موجودہ اخراجات برقرار رکھنے کے لیے بھاری قرضوں پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔

ان حالات میں یہ توقع کی جا رہی تھی کہ حکمران مالی نظم و ضبط کی اہمیت کو سمجھیں گے اور اس وقت کابینہ کا حجم بڑھانے سے گریز کریں گے، کیونکہ یہ غیر ضروری انتظامی اخراجات میں اضافے کا باعث بنے گا۔ اس کے برعکس، وسائل کو زیادہ بہتر طریقے سے ایسے اہم شعبوں میں جیسے غربت میں کمی، روزگار کے مواقع پیدا کرنا اور اقتصادی ترقی کے منصوبے میں استعمال کرینگے۔

اس کے برعکس، ہم خود کو ایک الجھے ہوئے منظرنامے میں پاتے ہیں، جہاں ایک طرف وزیر خزانہ مسلسل وسائل کے درست استعمال اور معیشت کی تنظیمِ نو کے ذریعے غیر ضروری اخراجات کم کرنے کی اہمیت پر زور دیتے ہیں، جبکہ دوسری طرف حکمران طبقہ اپنی پرتعیش اخراجاتی عادات تبدیل کرنے سے انکاری نظر آتا ہے۔

یہ بات قابل توجہ ہے کہ کابینہ کی توسیع اس قانون سازی کے بعد ہوئی ہے جس کے تحت اراکینِ پارلیمنٹ کی تنخواہیں تقریباً تین گنا بڑھا دی گئی ہیں، جو اس بات کو اجاگر کرتی ہے کہ ہمارے حکمرانوں کی ترجیحات غلط سمت میں ہیں اور عام شہریوں کی مالی مشکلات کم کرنے سے ان کا کوئی تعلق نہیں۔

معاشی چیلنجز سے نمٹنے کے لیے دی جانے والی تجاویز میں عام طور پر ٹیکس آمدن بڑھانے اور ٹیکس نیٹ کو وسعت دینے پر زور دیا جاتا ہے۔

حکومت کے لیے بھی اتنا ہی اہم ہے کہ وہ اپنے بے تحاشا اخراجات پر قابو پائے، خاص طور پر اس لیے کہ اس کے زیادہ تر اخراجات قرضوںکے ذریعے پورے کئے جاتے ہیں جو مالی خسارے میں اضافے اور معاشی بحران کو مزید سنگین بنانے کا سبب بن رہے ہیں۔

جب گزشتہ سال مسلم لیگ (ن) کی قیادت میں حکومت برسرِ اقتدار آئی تو اس اخبار نے وزیراعظم کو ایک مختصر اور کفایت شعار حکومت کی اہمیت تسلیم کرنے اور موجودہ اخراجات میں کمی کی ضرورت پر زور دیا تھا۔ انہیں متنبہ کیا گیا تھا کہ ملک ماضی کی ان غلطیوں کا متحمل نہیں ہو سکتا، جہاں سیاسی مفادات کے تحت کابینہ کو غیر ضروری طور پر وسیع کیا گیا اور دانشمندانہ معاشی نظم و نسق کو پسِ پشت ڈال دیا گیا۔

تاہم، ایسا لگتا ہے کہ موجودہ حکومت میں نہ تو صلاحیت ہے اور نہ ہی وژن کہ وہ ماضی کی اس روش سے ہٹ کر کوئی نیا راستہ اختیار کرے۔ مالی نظم و ضبط اور انتظامی کارکردگی پر مبنی پالیسی اپنانے کے بجائے، یہ وہی غیر مستحکم طریقے دہرا رہی ہے جن کی وجہ سے ملک بار بار بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے قرضوں پر انحصار کرنے پر مجبور ہوتا رہا ہے تاکہ دیوالیہ ہونے سے بچا رہے۔

حکمرانوں کو یہ سمجھنا چاہیے کہ بدلتے ہوئے عالمی حالات یہ اشارہ دیتے ہیں کہ غیر موثر اور حد سے زیادہ پھیلی ہوئی بیوروکریسی کو برقرار رکھنے کے لیے بیرونی مالی امداد پر انحصار کرنے کے دن ختم ہورہے ہیں۔

یہ طرزِ حکمرانی شاید اپنے اختتام کی طرف بڑھ رہا ہے۔ ہمیں ایک زیادہ مالی طور پر ذمہ دار اور کفایت شعار طرزِ حکومت کی ضرورت ہے، نہ کہ موجودہ نظام جو ایک بے جا بڑی کابینہ، بوجھل سرکاری ڈھانچے اور مسلسل نااہلی کے باعث پہلے ہی مشکلات کا شکار ہے۔

کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر، 2025

Read Comments