آزاد ماہرینِ معیشت کی جانب سے سرکاری اہلکاروں کے مرتب کردہ ڈیٹا پر سنگین اعتراضات اٹھائے گئے ہیں جس کے باعث انتظامیہ بروقت مناسب تخفیفی اقدامات کرنے میں ناکام رہی ہے۔
ملک میں پیدا ہونے والی تمام اشیاوخدمات کے مجموعے، یعنی مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) کے حساب و کتاب میں پائے جانے والے تضادات درج ذیل عوامل سے ظاہر ہوتے ہیں:(i) ذیلی شعبوں کے درمیان ہم آہنگی کا فقدان، مثلاً اگر سیمنٹ کے شعبے کی پیداوار میں کمی ہو رہی ہے تو عمارت سازی کے شعبے میں بھی کمی ہونی چاہیے، لیکن زیادہ شرحِ نمو دکھانے کی کوششوں میں یہ تعلق اکثر نظرانداز کر دیا جاتا ہے۔(ii) مہنگائی کو کم ظاہر کیا جاتا ہے، جس میں سبسڈیز کو شامل کیا جاتا ہے، چاہے وہ غریب اور کمزور طبقے کے لیے مختص بجلی کے نرخ ہوں یا ضروری اشیا پر دی جانے والی رعایت، جو رسد کے مسائل کی وجہ سے مستحق افراد تک بھی نہیں پہنچتی، یا پھر زرمبادلہ کی شرح پر کنٹرول کے ذریعے درآمدی مہنگائی (خصوصاً ایندھن اور خوردنی تیل) کے اثرات کو کم کر کے پیش کیا جاتا ہے۔اور(iii) بے روزگاری کی شرح کو کم ظاہر کیا جاتا ہے، کیونکہ پاکستان میں دیگر ممالک کی طرح فعال لیبر ایکسچینجز موجود نہیں، جن سے درست اعدادوشمار حاصل کیے جا سکیں۔ بعض ناقدین کا کہنا ہے کہ درست اعداد و شمار پیش کرنے کے لیے ماہر شماریات اور ڈیٹا اکٹھا کرنے والے اہلکاروں کی کمی بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔
مثال کے طور پر، مویشیوں کی کل تعداد عام طور پر تخمینی اندازوں پر مبنی ہوتی ہے، جو حقیقت کا درست عکاس ہو بھی سکتی ہے اور نہیں بھی۔
یہ خامیاں 11 اکتوبر 2024 کے اس دستاویز میں بیان کی گئی ہیں، جو بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی ویب سائٹ پر ”اسٹاف رپورٹ برائے 2024 آرٹیکل IV مشاورت اور توسیعی فنڈ سہولت کے تحت توسیعی معاہدے کی درخواست“ کے عنوان سے شائع کی گئی۔ رپورٹ میں نشاندہی کی گئی کہ:“ذرائع سے حاصل شدہ ڈیٹا میں نمایاں خامیاں اب بھی موجود ہیں، خاص طور پر ان شعبوں میں جو جی ڈی پی کے ایک تہائی حصے پر مشتمل ہیں، جبکہ سرکاری مالیاتی شماریات (جی ایف ایس) میں بھی تفصیلات اور اعتماد کے مسائل پائے جاتے ہیں… ان خامیوں میں شامل ہیں:(i) ایسے شعبوں کے تخمینے یا اندازے کے لیے مردم شماری کے درمیانی عرصے میں شرحِ نمو پر انحصار، جو مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) کے تقریباً ایک تہائی حصے پر مشتمل ہیں۔(ii) اخراجات کی بنیاد پر جی ڈی پی کے تعین کیلئے دستیاب بنیادی ڈیٹا کی محدود دستیابی۔؛ (iii) آمدن کی بنیاد پر تخمینوں کی عدم موجودگی۔
جی ایف ایس میں سب سے اہم مسائل درج ذیل ہیں:(i) اخراجات کی مناسب معاشی درجہ بندی کا فقدان۔(ii) صوبوں اور خودمختار اداروں کی آمدن اور اخراجات کی تفصیلات میں کمی۔(iii) مالیاتی خسارے کے اوپر اور نیچے کی لکیر کے پیمانوں میں عدم مطابقت۔
قیمتوں سے متعلق ڈیٹا نسبتاً جامع ہے اور اسے باقاعدگی سے شائع کیا جاتا ہے، تاہم صارف قیمت اشاریہ (سی پی آئی) کے تناسب جو مالی سال 2015-16 کے ہیں، کچھ حد تک پرانے ہو چکے ہیں۔ بیرونی شعبے کا ڈیٹا عمومی طور پر مناسب ہے، لیکن غیر رسمی مالیاتی بہاؤ کے تخمینے دستیاب نہیں، اور غیر سرکاری و مالیاتی شعبے کے اثاثوں اور مالیاتی بہاؤ کی مزید تفصیلات مفید ثابت ہوسکتی ہیں۔
مانیٹری اور مالیاتی شماریات بینکاری شعبے کی اچھی کوریج فراہم کرتی ہیں، اگرچہ بینکوں کے خالص زرمبادلہ (ایف ایکس ) پوزیشنز سے متعلق کچھ خامیاں موجود ہیں۔
حکام نے اس بات کی تصدیق میمورنڈم آف اکنامک اینڈ فنانشل پالیسیز میں کی ہے: ہم تسلیم کرتے ہیں کہ اب بھی نمایاں خامیاں موجود ہیں، جن میں جی ڈی پی کے حجم کے تخمینے کیلئے استعمال ہونے والے پروڈیوسر پرائس ڈیٹا کا معیار اور ان شعبوں کے بنیادی ڈیٹا کی دستیابی شامل ہے جو جی ڈی پی کے تقریباً ایک تہائی حصے پر مشتمل ہیں اور جن کا انحصار زیادہ تر مالی سال 2006 اور 2016 کی مردم شماری کے درمیان شرح نمو کے تخمینے پر ہے۔
مالی سال 2025-26 میں نیشنل اکاؤنٹس کی ری بیسنگ کے پیش نظر، پاکستان بیورو آف شماریات اس وقت نئے پیداواری قیمت اشاریہ (پی پی آئی) انڈیکس کی تیاری پر کام کررہا ہے، جس میں آئی ایم ایف کی تکنیکی معاونت حاصل ہے۔ زرعی اور صنعتی سرگرمیوں کے لیے پائلٹ ڈیٹا اکٹھا کرنے کا آغاز جولائی 2024 میں متوقع ہے۔
اسی حوالے سے، پاکستان بیورو آف شماریات جولائی 2024 میں چار بڑے سروے کے فیلڈ ورک کا آغاز کرے گا، جن میں مربوط زرعی مردم شماری، لیبر فورس سروے، اور ہاؤس ہولڈ انٹیگریٹڈ اکنامک سروے شامل ہیں۔ ان سرویز کے ابتدائی نتائج مالی سال 2025 کے دوران دستیاب ہونے کی توقع ہے۔
اگرچہ آئی ایم ایف کا مؤقف اس مفروضے پر مبنی ہے کہ مسائل کی بنیادی وجہ قابلیت کی کمی ہے، لیکن آزاد ماہرینِ معاشیات کا کہنا ہے کہ ڈیٹا جان بوجھ کر چھیڑ چھاڑ کیا جاتا ہے۔ ان کے مطابق، یہ اقدام کابینہ کے سینئر اراکین کی ہدایات پر کیا جاتا ہے، جو معیشت کے بجائے حکومت کی سیاسی ساکھ کو ترجیح دیتے ہیں اور معاشی ٹیم کے رہنماؤں کو بحران کے دوران بروقت مناسب اقدامات کرنے کے اختیارات نہیں دیتے۔
دوسری جانب کچھ ناقدین اسٹیٹ بینک پر بھی تنقید کرتے ہیں کہ وہ زرمبادلہ ذخائر یا ریئر جیسے اہم معاشی اشاریوں کے اجراء میں تاخیر کرتا ہے کیونکہ یہ اعدادوشمار معیشت کی خراب صورتحال کو نمایاں کر سکتے ہیں۔
امید کی جاتی ہے کہ اس روش کو ترک کیا جائے گا، کیونکہ یہ حکومت کے اس دعوے کو بے وقعت بنا دیتی ہے کہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان وزارتِ خزانہ سے آزادانہ فیصلے کرتا ہے۔
کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر، 2025