مقامی خام مال، اپٹما کا یکساں مواقع فراہم کرنے کا مطالبہ

اپ ڈیٹ 11 فروری 2025

آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن (اپٹما) نے حکومت سے فوری اقدامات کا مطالبہ کیا ہے تاکہ ٹیکسٹائل کے شعبے، خاص طور پر اسپننگ انڈسٹری، کو درپیش سنگین بحران کو روکا جا سکے۔ غیر مساوی پالیسیوں کی وجہ سے یہ صنعت تباہی کے دہانے پر پہنچ چکی ہے۔ اب تک 100 سے زائد اسپننگ ملیں، جو مجموعی پیداواری صلاحیت کے تقریباً 40فیصد کے برابر ہیں، بند ہو چکی ہیں، جبکہ باقی ماندہ ملیں بمشکل 50فیصد صلاحیت پر کام کر رہی ہیں۔ ایکسپورٹ فیسلیٹیشن اسکیم (ای ایف ایس) کے نفاذ میں تاخیر نے مقامی صنعت کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔

ایک بڑا مسئلہ دھاگے کی درآمد میں تیزی سے اضافہ ہے، جو صرف جنوری 2024 میں 32 ملین کلوگرام تک پہنچ گیا۔ اگر یہ رجحان جاری رہا تو مالی سال 2025 میں دھاگے کی درآمد مالی سال 2024 کے مقابلے میں تین گنا بڑھ سکتی ہے، جس سے مقامی صنعت مکمل طور پر تباہ ہو جائے گی۔ اس بحران کا اثر صرف اسپننگ تک محدود نہیں بلکہ ٹیکسٹائل کے دیگر شعبے، بشمول ویونگ اور ڈاؤن اسٹریم انڈسٹریز، بھی شدید مشکلات کا شکار ہیں۔ اپٹما نے خبردار کیا ہے کہ اگر حکومت نے فوری طور پر ٹیکس پالیسیوں پر نظرثانی نہ کی، خاص طور پر مقامی مصنوعات پر 18فیصد سیلز ٹیکس ختم نہ کیا، تو پورا ٹیکسٹائل سیکٹر ختم ہوجائے گا، جس کے نتیجے میں معیشت تباہ ہو سکتی ہے۔

موجودہ ٹیکس نظام مقامی خام مال کو غیر ملکی درآمدات کے مقابلے میں غیر مسابقتی بنا رہا ہے۔ برآمد کنندگان کو مقامی مصنوعات خریدنے پر پہلے 18فیصد سیلز ٹیکس ادا کرنا پڑتا ہے، جس رقم کی واپسی 6 سے 10 ماہ بعد ہوتی ہے، اور اس میں بھی صرف 70فیصد رقوم واپس ملتی ہیں، جبکہ باقی 30فیصد کی واپسی غیر معینہ مدت تک مؤخر کر دی جاتی ہے۔ اس پیچیدہ نظام کی وجہ سے برآمد کنندگان مقامی میٹریل کے بجائے درآمد شدہ میٹریل کا استعمال کرنے پر مجبور ہیں، جو مقامی پیداوار کے لیے نقصان دہ ہے۔

اسپننگ انڈسٹری پہلے ہی مہنگی توانائی، بھاری ٹیکسوں، اور غیر مسابقتی کاروباری ماحول کی وجہ سے مشکلات کا شکار ہے۔ اس صنعت کی تباہی پاکستان کی معیشت کے لیے بڑا دھچکا ثابت ہو گی، کیونکہ ٹیکسٹائل سیکٹر روزگار، زرمبادلہ، اور دیہی معیشت میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ فیکٹریوں کی بندش سے ہزاروں مزدور بے روزگار ہو چکے ہیں، جبکہ لاکھوں لوگوں کے روزگار کو خطرہ لاحق ہو گیا ہے۔ تقریباً 15 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری، بشمول ٹمپرری اکنامک ری فنانسنگ فیسلیٹی (ٹی ای آر ایف) کے تحت کی گئی سرمایہ کاری، خطرے میں پڑ گئی ہے۔

مزید برآں، ملک کے تجارتی توازن پر بھی منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں کیونکہ مقامی خام مال کی بجائے درآمدات پر زرمبادلہ خرچ کیا جا رہا ہے، جو معیشت کو کمزور کر رہا ہے۔ یہ بحران پاکستان کی کپاس کی معیشت کے لیے بھی خطرناک ہے کیونکہ اسپننگ انڈسٹری ہر سال 16 ملین گانٹھوں سے زائد کپاس استعمال کرتی ہے۔ اگر مقامی مانگ ختم ہو گئی تو کپاس کے کاشتکاروں کو شدید نقصان پہنچے گا، خاص طور پر جنوبی پنجاب اور بلوچستان جیسے پسماندہ علاقوں میں جہاں لاکھوں افراد کی روزی کپاس کی کاشت پر منحصر ہے۔ کپاس چننے والی خواتین، جو پہلے ہی کمزور طبقہ ہیں، سب سے زیادہ متاثر ہوں گی کیونکہ ان کی آمدنی غیر ملکی کاشتکاروں کو منتقل ہو جائے گی۔

اپٹما نے کہا ہے کہ موجودہ پالیسیوں کے باعث پاکستان درحقیقت چین، برازیل، امریکہ اور ازبکستان جیسے ممالک میں زرعی اور صنعتی شعبے کو سبسڈی دے رہا ہے، جبکہ اپنی صنعت کو تباہ کر رہا ہے۔

صورتحال کو مزید خراب کرنے والی بات یہ ہے کہ موجودہ آئی ایم ایف معاہدے کے تحت حکومت کو کپاس کے لیے سپورٹ پرائس دینے سے روکا گیا ہے، جس کی وجہ سے مقامی کسان مزید مشکلات میں گھر گئے ہیں۔ پاکستان کی کپاس عالمی معیار کے مطابق برآمدی مسابقت نہیں رکھتی اور زیادہ تر مقامی سطح پر استعمال ہوتی ہے، جہاں اسے درآمدی کپاس کے ساتھ ملایا جاتا ہے۔ اگر اسپننگ انڈسٹری ختم ہو گئی تو کسان کپاس کی کاشت سے گریز کریں گے، جس سے پاکستان کی کپاس کی معیشت مزید غیر مستحکم ہو جائے گی۔

اپٹما نے حکومت سے فوری اقدامات کا مطالبہ کیا ہے تاکہ صنعت کو مکمل تباہی سے بچایا جا سکے۔ سب سے اہم قدم ایکسپورٹ فیسلیٹیشن اسکیم (ای ایف ایس) کو جون 2024 کی سطح پر بحال کرنا ہے، جس میں برآمدی پیداوار کے لیے مقامی مصنوعات پر صفر یا کم سیلز ٹیکس شامل ہو۔ اگر مکمل بحالی ممکن نہ ہو تو کم از کم مقامی اور درآمدی اشیاء پر یکساں ٹیکس لاگو کر کے مساوات پیدا کی جائے۔

مزید برآں، بجٹ میں بھارت کی طرح ایک گریجویٹڈ سیلز ٹیکس نظام متعارف کروانے پر غور کیا جانا چاہیے، جہاں خام مال پر ٹیکس کی شرح کم اور تیار شدہ مصنوعات پر زیادہ ہو۔ اس سے ٹیکس چوری کم ہو گی، مقامی پیداوار میں اضافہ ہو گا، اور صنعت کی مسابقتی صلاحیت بڑھے گی۔

اپٹما نے خبردار کیا ہے کہ پاکستان کی ٹیکسٹائل انڈسٹری زندگی اور موت کی جنگ لڑ رہی ہے اور حکومت خود اس کے خاتمے کی راہ ہموار کر رہی ہے۔ اگر فوری اقدامات نہ کیے گئے تو اسپننگ سیکٹر کی تباہی سے کپاس کے کاشتکار برباد ہو جائیں گے، اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری ضائع ہو جائے گی، لاکھوں لوگ بے روزگار ہو جائیں گے، اور پاکستان کی کمزور معیشت مزید زوال کا شکار ہو جائے گی۔ حکومت کو فیصلہ کرنا ہو گا کہ آیا وہ اپنی صنعت اور محنت کشوں کی حمایت کرے گی یا غیر ملکی معیشتوں کو فائدہ پہنچاتی رہے گی۔ فیصلے کا وقت آ چکا ہے، اور تاخیر کی کوئی گنجائش نہیں۔

کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر، 2025

Read Comments