سابق وفاقی وزیر برائے موسمیاتی تبدیلی شیری رحمٰن نے کہا ہے کہ اگر پاکستانی نوجوانوں کو اس مسئلے کے بارے میں تعلیم دی جائے تو وہ ماحولیاتی بحران سے نمٹنے میں گیم چینجر ثابت ہوسکتے ہیں۔
ان خیالات کا اظہار انہوں نے کراچی لٹریچر فیسٹیول (کے ایل ایف) میں ’موسمیاتی تبدیلیوں، ان کے اثرات اور نمٹنے کی تعلیم کے ذریعے استحکام پیدا کرنا‘ کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔
پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے ذرائع ابلاغ کے ایک بیان کے مطابق سینیٹر شیری رحمن نے کہا کہ ایک ایسی دنیا میں جہاں رواداری کم ہے اور غلط معلومات تیزی سے پھیلتی ہیں، ایک بے خبر آبادی سے زیادہ خطرناک کچھ نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم اکثر پیچیدہ یا فنی اصطلاحات میں پھنس جاتے ہیں، ایک کے بعد ایک کانفرنس منعقد کرتے ہیں- 29 ماحولیاتی کانفرنسوں کے بعد بھی ہم عالمی اخراج ( کاربن ) میں کمی کے بجائے اضافہ دیکھ رہے ہیں. دریں اثنا زمینی حقائق خوفناک رفتار سے تبدیل ہو رہے ہیں اور موسمیاتی آفات میں تیزی آتی جا رہی ہے۔
سابق وزیر نے تعلیمی پالیسیوں میں فوری اصلاحات پر زور دیا تاکہ پاکستان کے نوجوانوں کو بڑھتے ہوئے ماحولیاتی بحران سے نمٹنے کے لئے ضروری علم اور مہارت سے آراستہ کیا جاسکے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کے نوجوانوں کی آبادی جو دنیا کی سب سے بڑی آبادیوں میں سے ایک ہے، ماحولیاتی بحران سے نمٹنے میں گیم چینجر ثابت ہوسکتی ہے۔ اس وقت پاکستان کی 65 فیصد سے زائد آبادی کی عمر 30 سال سے کم ہے اور 2047 تک 50 سے 60 فیصد افراد کی اوسط عمر 30 سال سے کم ہی رہے گی۔
تاہم اپنی صلاحیتوں کے باوجود، پاکستانی نوجوان موسمیاتی تبدیلی کے بارے میں بڑی حد تک بے خبر ہیں ۔ یونیسیف کے ایک سروے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ پاکستان میں 73 فیصد نوجوان ماحولیاتی تبدیلی اور گلوبل وارمنگ کی وضاحت نہیں کر سکے، جو تمام 8 جنوبی ایشیائی ممالک میں سب سے زیادہ شرح ہے۔ صرف 16 فیصد نے اسکولوں میں موسمیاتی کی تبدیلی کے بارے میں سیکھنے کی اطلاع دی جبکہ علاقائی اوسط 36 فیصد ہے.
انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ پاکستان موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے فرنٹ لائن پر موجود ہے اور اس کی کمزوری بنیادی ڈھانچے کے چیلنجز، ناقص ماحولیاتی گورننس اور عوامی آگاہی کی کمی کی وجہ سے مزید بڑھ گئی ہے۔
ساحلی شہر ہونے کے ناطے کراچی خاص طور پر خطرے سے دوچار ہے۔ آرکٹک کی برف تیزی سے پگھل رہی ہے اور شدید موسمی واقعات زیادہ کثرت سے ہو رہے ہیں۔ 2022 میں پاکستان نے تاریخ کی بدترین موسمیاتی تباہی کا سامنا کیا - ملک کا ایک تہائی حصہ زیر آب آ گیا ، جس سے 33 ملین افراد متاثر ہوئے ، لاکھوں بے گھر ہوئے اور تعلیم بری طرح متاثر ہوئی۔ 27 ہزار سے زائد اسکول متاثر ہوئے اور 20 لاکھ بچوں کی پڑھائی رک گئی۔
سینیٹر شیری رحمن کا کہنا تھا کہ موسمیاتی تبدیلی صرف ماحولیاتی مسئلہ نہیں بلکہ موجودہ عدم مساوات میں اضافہ ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ موسمیاتی تبدیلی عدم مساوات کی ایک نئی پرت پیدا کرتی ہے، جس سے معاشرتی کمزوریاں گہری ہوتی ہیں۔ سب سے بڑھ کر پانی اور غذائی عدم تحفظ پسماندہ لوگوں کو سب سے زیادہ متاثر کرے گا، جس سے صحت، روزگار اور مجموعی معیار زندگی متاثر ہوگا۔
سینیٹر شیری رحمن نے پاکستانی عوام کے حوصلے ( قوت برداشت) کا اعتراف کیا اور ملک بھر میں موسمیاتی چیلنجز سے نمٹنے کے منظرعام پرآنے والے والے جدید طریقہ کار(حل) پر روشنی ڈالی۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان قابل تجدید توانائی کی جانب بڑھ رہا ہے اور چھتوں پر شمسی توانائی کا انقلاب زور پکڑ رہا ہے۔ ہمارے پاس موسمیاتی مشکلات کے حل کے لئے کام کرنے والے نوجوانوں کے ساتھ جدت طرازی کے مراکز بھی ہیں ، لیکن ناکافی فنڈنگ کی وجہ سے ان میں مہارتوں کی کمی ہے۔
انہوں نے عالمی سطح پر، پاکستان کی موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے درکار مناسب مالی وسائل کے حصول میں جدوجہد کی نشاندہی کی۔
شیری رحمن کا کہنا تھا کہ ہم اس سیارے ( زمین) کے حد سے بڑھ کر گرم ہونے کا سبب نہیں بن رہے ہیں. پھر بھی، سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ممالک میں شامل ہونے کے باوجود، ہمیں موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے نمٹنے کے لیے مالی اعانت کا صرف ایک معمولی سا حصہ ملا ہے جس کی ہمیں ضرورت ہے۔ سینیٹر شیری رحمن نے کہا کہ ہمیں جو کچھ ملتا ہے وہ قسطوں میں ہوتا ہے جبکہ ترقی پذیر ممالک مسلسل مشکلات کا شکار ہوتے رہتے ہیں۔