امریکی صدر کا غزہ پر قبضہ کرنے کا اعلان

05 فروری 2025

صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ امریکہ جنگ زدہ غزہ کی پٹی کا کنٹرول سنبھال کر اسے اقتصادی طور پر ترقی دے گا جب کہ فلسطینیوں کو کہیں اور آباد کیا جائے۔ یہ اقدام اسرائیل-فلسطین تنازع پر امریکی پالیسی کے دہائیوں پرانے اصولوں کو یکسر بدل دے گا۔

ٹرمپ نے اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کے ساتھ ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں تفصیلات فراہم کیے بغیر اپنے حیرت انگیز منصوبے کا اعلان کیا۔

یہ اعلان صدر ٹرمپ کی حیران کن تجویز کے بعد سامنے آیا، جس میں انہوں نے غزہ سے دو ملین سے زائد فلسطینیوں کو ہمسایہ ممالک میں مستقل طور پر آباد کرنے کی بات کی۔ ٹرمپ نے اس علاقے کو، جہاں اسرائیل اور حماس کے درمیان ایک نازک جنگ بندی اور یرغمالیوں کی رہائی کا معاہدہ نافذ العمل ہے، ایک ”تباہ شدہ علاقہ“ قرار دیا۔

ٹرمپ اپنے اتحادیوں اور دشمنوں سے توقع کرسکتے ہیں کہ وہ غزہ پر کسی بھی امریکی قبضے کی سختی سے مخالفت کریں گے، یہ تجویز اس سوال کو بھی جنم دیتی ہے کہ کیا مشرقِ وسطیٰ کی اہم طاقت سعودی عرب، اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی تاریخی بحالی کے لیے کسی نئی امریکی کوشش کا حصہ بننے پر آمادہ ہوگا۔

غزہ میں براہِ راست امریکی کردار اپنانا واشنگٹن اور زیادہ تر بین الاقوامی برادری کی طویل المدتی پالیسی کے منافی ہوگا، جو اس مؤقف پر قائم رہی ہے کہ غزہ مستقبل میں ایک آزاد فلسطینی ریاست کا حصہ ہوگا جس میں مقبوضہ مغربی کنارے کو بھی شامل کیا جائے گا۔

ٹرمپ نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ غزہ کی پٹی کا کنٹرول سنبھالے گا اور ہم وہاں شاندار کام کریں گے، ہم اس کے مالک ہوں گے اور وہاں موجود تمام خطرناک غیر پھٹے ہوئے بموں اور دیگر ہتھیاروں کو تلف کرنے کی ذمہ داری اٹھائیں گے۔

ٹرمپ نے کہا کہ ہم اسے ترقی دیں گے، ہزاروں کی تعداد میں ملازمتیں پیدا کریں گے اور یہ کچھ ایسا ہوگا جس پر پورا مشرق وسطیٰ فخر کر سکے گا۔ میں اسے طویل المدتی ملکیت کے طور پر دیکھتا ہوں اور مجھے یقین ہے کہ یہ مشرق وسطیٰ کے اس حصے میں زبردست استحکام لائے گا۔

جب ٹرمپ سے پوچھا گیا کہ وہاں کون رہ سکتا ہے، تو انہوں نے کہا کہ یہ ”دنیا کے لوگوں“ کے لیے گھر بن سکتا ہے۔ ٹرمپ نے اس تنگ علاقے کو، جہاں اسرائیل کے فوجی حملے نے 7 اکتوبر 2023 کے حماس کے سرحد پار حملے کے جواب میں بڑی تباہی مچائی تھی، ”مشرق وسطیٰ کی رویرا“ بننے کی صلاحیت رکھنے والا علاقہ قرار دیا۔

ٹرمپ نے اس سوال کا براہ راست جواب نہیں دیا کہ امریکہ کس طرح اور کس اختیار کے تحت غزہ پر قبضہ کرسکتا ہے، جو کہ ایک ساحلی پٹی ہے جو 25 میل (45 کلومیٹر) طویل اور زیادہ سے زیادہ 6 میل (10 کلومیٹر) چوڑی ہے اور جس کی تاریخ تشدد سے بھری ہوئی ہے۔ امریکی انتظامیہ، بشمول ٹرمپ کی پہلی مدت کے دوران، وہاں امریکی فوجیوں کو تعینات کرنے سے گریز کرتی رہی ہے۔

کئی ڈیموکریٹک اراکین نے ری پبلکن صدر کے غزہ کے حوالے سے پیش کردہ منصوبوں کی فوری مذمت کی۔

نیتن یاہو، جنہیں ٹرمپ کئی بار بی بی کے لقب سے پکارتے ہیں اس تجویز پر تفصیل سے بات کرنے سے گریز کرتے ہوئے صرف ٹرمپ کی تعریف کی کہ انہوں نے ایک نیا طریقہ اپنانے کی کوشش کی۔

اسرائیلی وزیرِاعظم جن کی فوج نے غزہ میں حماس کے ساتھ ایک سال سے زائد عرصے تک شدید لڑائی کی ہے نے کہا کہ ٹرمپ “نئے اور غیر روایتی خیالات کے ساتھ سوچ رہے ہیں۔

نیتن یاہو کو شاید اس بات سے راحت ملی ہو کہ ٹرمپ، جنہوں نے وائٹ ہاؤس میں اپنی پہلی مدت کے دوران اسرائیلی رہنما کے ساتھ قریبی تعلقات استوار کیے تھے، نے ان پر جنگ بندی برقرار رکھنے کے لیے عوامی طور پر دباؤ نہیں ڈالا۔

انہیں اپنی اتحادی جماعتوں کے دائیں بازو کے ارکان سے دھمکیاں موصول ہو رہی ہیں کہ اگر وہ غزہ میں ایران کی حمایت یافتہ حماس کو ختم کرنے کے لیے لڑائی دوبارہ شروع نہ کریں تو ان کی حکومت گرا دی جائے گی۔

کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ ٹرمپ بعض اوقات بین الاقوامی سطح پر انتہائی مؤقف اختیار کرتے ہیں تاکہ مستقبل میں مذاکرات کے لیے حدود مقرر کی جا سکیں۔ اپنے پہلے دور میں، ٹرمپ نے کئی بار ایسے غیر متوازن خارجہ پالیسی کے بیانات دیے، جن میں سے بیشتر کو انہوں نے کبھی نافذ نہیں کیا۔

اقوام متحدہ کی جانب سے جنوری میں جاری کی گئی نقصان کا تخمینہ ظاہر کرتا ہے کہ اسرائیل کی بمباری کے بعد غزہ میں 50 ملین ٹن سے زیادہ ملبہ صاف کرنے میں 21 سال لگ سکتے ہیں اور اس پر ایک ارب ڈالر تک کا خرچ آسکتا ہے۔

Read Comments