یورپی یونین (ای یو) نے پاکستان کو یاد دہانی کرائی ہے کہ جنرلائزڈ اسکیم آف پریفرنسز پلس (جی ایس پی پلس) کے تحت پاکستان کو فراہم کی جانے والی تجارتی مراعات اس بات پر منحصر ہیں کہ پاکستان انسانی حقوق سمیت مختلف مسائل پر کتنی پیش رفت کرتا ہے۔
یہ پیشرفت اُس وقت سامنے آئی جب یورپی یونین کے خصوصی نمائندے برائے انسانی حقوق، ایل آف اسکُوگ نے پاکستان کا ایک ہفتے کا دورہ کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان جنوبی ایشیا میں یورپی یونین کا اہم شراکت دار ہے۔ ہمارے تعلقات جمہوریت، انسانی حقوق اور قانون کی حکمرانی کی مشترکہ اقدار پر استوار ہیں جو اقوام متحدہ کے چارٹر اور بین الاقوامی اصولوں کے عین مطابق ہے۔
مشن نے اپنے بیان میں کہاہے کہ ہم موجودہ مانیٹرنگ سائیکل کی درمیانی مدت تک پہنچ رہے ہیں اس لیے ہم پاکستان کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں کہ وہ اصلاحات کی سمت پر گامزن رہے کیوں کہ پاکستان جی ایس پی پلس کے ضابطے کے تحت دوبارہ درخواست دینے کی تیاری کررہا ہے اور اس کے تحت ملنے والے تجاری فوائد کا انحصار اس بات پر ہے کہ پاکستان بشمول انسانی حقوق مختلف مسائل پر کس حدتک پیشرفت کرتا ہے جبکہ اصلاحات بھی ناگزیر ہیں۔
اپنے دورے کے دوران مشن کا مقصد پاکستان کو انسانی حقوق اور مزدوروں کے حقوق سے متعلق اہم ترین مسائل پر بات چیت کرنا اور جی ایس پی پلس تجارتی اسکیم کے تحت جاری جائزے کے تناظر میں ان سے نمٹنے کے لیے پاکستان کے منصوبوں پر تبادلہ خیال کرنا تھا۔
پاکستان کو یکم جنوری 2014 کو جی ایس پی پلس کا درجہ دیا گیا تھا جب پاکستان نے 27 بین الاقوامی کنونشنز کی توثیق کی تھی اور ان پر عمل درآمد کا عزم کیا تھا۔
یورپی یونین کا جی ایس پی پلس مشن تجارت کو آسان بنا کر بہتر طرز حکمرانی اور پائیدار ترقی کو فروغ دینے کے لئے ایک خصوصی ترغیبی انتظام کے طور پر کام کرتا ہے۔ یہ مراعات پاکستان کو تقریبا 66 فیصد ٹیرف لائنز پر زیرو ریٹڈ یا ترجیحی ٹیرف فراہم کرتی ہیں جس سے ملک کی یورپی یونین کی مارکیٹ میں برآمد کرنے کی صلاحیت میں اضافہ ہوتا ہے۔
جی ایس پی پلس پاکستان اور یورپی یونین کے باہمی تجارتی تعلقات کے لیے اہم ثابت ہوا ہے۔ 2014 سے 2022 تک یورپی یونین کو پاکستان کی برآمدات میں 108 فیصد اضافہ ہوا جبکہ یورپی یونین سے درآمدات میں 65 فیصد اضافہ ہوا اور مجموعی تجارتی حجم 2013 میں 8.3 ارب یورو سے بڑھ کر 14.85 ارب یورو ہو گیا۔ یورپی یونین کی ویب سائٹ پر دستیاب اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کے گارمنٹس، بیڈلائنن، ٹیری تولیہ، ہوزری، چمڑے، کھیلوں اور سرجیکل سامان اور اسی طرح کی مصنوعات جی ایس پی پلس مراعات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے یورپی یونین کی مارکیٹ میں داخل ہوتی ہیں۔
پاکستان کے ایک ہفتے کے دورے کے دوران سفیر اسکوگ نے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے وزراء، عسکری قیادت، سینئر حکام، اقوام متحدہ کے اداروں، انسانی حقوق کے محافظوں اور وکلاء، سول سوسائٹی کی تنظیموں، میڈیا کے نمائندوں اور کاروباری شعبے کے نمائندوں سے ملاقاتیں کیں۔
نمائندہ خصوصی نے انسانی حقوق کی ذمہ داریوں کو پورا کرنے میں پاکستان کی حمایت کے لئے یورپی یونین کے عزم کا اعادہ کیا اور اس سلسلے میں ملک کی متحرک سول سوسائٹی سمیت تمام اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ پرعزم کوششوں اور بامعنی مشاورت کی حوصلہ افزائی کی۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کی قیادت کے ساتھ ملاقاتوں میں اسفیر سکوگ نے جن مسائل پر تشویش کا اظہار کیا، ان میں توہین مذہب کے قوانین کا نفاذ، خواتین کے حقوق، جبری شادیوں اور مذہب کی تبدیلی، جبری گمشدگیاں، اظہار رائے، مذہب یا عقیدے کی آزادی، میڈیا کی آزادی، حقوق کی خلاف ورزیوں کے لیے استثنیٰ، مناسب طریقہ کار اور منصفانہ ٹرائل کا حق، شہری آزادیوں اور سزائے موت جیسے معاملات بھی شامل تھے۔
بیان کے مطابق پاکستان کے چیف جسٹس، جسٹس یحییٰ آفریدی کے ساتھ ملاقات میں عدلیہ کے زیر التوا مقدمات پر توجہ مرکوز کی گئی، اور ساتھ ہی عدلیہ کی ”سالمیت اور آزادی“ پر بھی بات کی گئی