اسرائیل کے ساتھ 15 ماہ سے جاری جنگ کی وجہ سے جو علاقے ملبے کا ڈھیر بن گئے ہیں وہاں اتوار کو ہونے والی جنگ بندی کے تناظر میں حماس کے عہدیدار ملبے کی صفائی کی نگرانی کر رہے ہیں۔
اس گروپ کے مسلح افراد غزہ کی گرد آلود سڑکوں پر امدادی قافلوں کی حفاظت کر رہے ہیں اور نیلی وردی میں ملبوس اس کے پولیس ایک بار پھر شہر کی گلیوں میں گشت کر رہے ہیں جس سے یہ واضح پیغام جا رہا ہے کہ حماس بدستور برسراقتدار ہے۔
اسرائیلی حکام نے حماس کے جنگجوؤں کی ایک پریڈ کو فلسطینی عسکریت پسند گروپ کی طاقت کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کی سوچی سمجھی کوشش قرار دیا ہے جس میں اتوار کے روز جنگ بندی کا جشن منایا گیا تھا۔
لیکن جنگ بندی کے نفاذ کے بعد سے غزہ کی حماس کے زیر انتظام انتظامیہ نے فوری طور پر سکیورٹی بحال کرنے، لوٹ مار روکنے اور انکلیو کے کچھ حصوں میں بنیادی خدمات کی بحالی شروع کرنے کے لیے تیزی سے قدم اٹھایا ہے، جن کا ایک حصہ اسرائیلی حملے کی وجہ سے بنجر زمین میں تبدیل ہو گیا ہے۔
منگل کے روز اس کی پولیس اور مسلح افراد ، جنہیں اسرائیلی فضائی حملوں کی وجہ سے کئی مہینوں تک سڑکوں سے دور رکھا گیا تھا، کو مضافات میں تعینات کیا گیا۔
حماس کے زیر انتظام غزہ حکومت کے میڈیا آفس کے ڈائریکٹر اسماعیل الثوبطہ نے کہا ہم کسی بھی قسم کے سیکورٹی خلا کو روکنا چاہتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ تقریبا 700 پولیس اہلکار امدادی قافلوں کی حفاظت کر رہے ہیں اور اتوار سے اب تک ایک بھی ٹرک نہیں لٹا۔
جنیوا میں اقوام متحدہ کے ایک ترجمان نے منگل کے روز تصدیق کی کہ جنگ بندی کے نفاذ کے بعد سے امدادی کارکنوں پر لوٹ مار یا حملوں کی کوئی اطلاع نہیں ہے۔
حالیہ ہفتوں کے دوران اسرائیلی فضائی حملوں میں غزہ میں نچلے درجے کے منتظمین کو نشانہ بنایا گیا ہے تاکہ اقتدار پر حماس کی گرفت کمزور ہوسکے۔
اسرائیل پہلے ہی حماس کی قیادت کو ختم کر چکا ہے، جس میں سیاسی سربراہ اسماعیل ہانیہ اور 7 اکتوبر کے حملے کے معمار یحییٰ سنوار بھی شامل ہیں۔
نقصانات کے باوجود الثوبتہ نے کہا کہ حماس کے زیر انتظام انتظامیہ کام جاری رکھے ہوئے ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت ہمارے پاس شہریوں کو خدمات فراہم کرنے کے لئے روزانہ 18،000 ملازمین کام کر رہے ہیں۔
حماس کے زیر انتظام میونسپلٹیز نے اتوار کے روز کم ازکم اتنا ملبہ ہٹانے کیلئے کام شروع کردیا گیا تھا تاکہ گاڑیاں با آسانی گزر سکیں جبکہ کارکنوں نے پائپوں اور بنیادی ڈھانچے کی مرمت بھی شروع کردی تھی تا کہ آس پاس کے علاقوں میں پانی کی بحالی کی جاسکے۔
منگل کے روز درجنوں بھاری ٹرکوں نے غزہ کے گرد آلود مرکزی حب کے ساتھ تباہ شدہ عمارتوں سے ملبہ اٹھایا۔
اسرائیلی وزیرِاعظم بینجمن نیتن یاہو نے غزہ کے بعد کے مستقبل کے بارے میں کوئی واضح وژن پیش نہیں کیا، سوائے اس کے کہ حماس گروپ کا کوئی کردار نہیں ہو سکتا اور یہ کہ فلسطینی اتھارٹی – جو اوسلو امن معاہدوں کے تحت تیس سال پہلے قائم کی گئی تھی اور جو مقبوضہ مغربی کنارے کا کچھ حصہ انتظام کرتی ہے – اس کے موجودہ قیادت کے تحت بھی قابل اعتماد نہیں ہو سکتی۔
اسرائیلی حکومت نے رائٹرز کے سوالات کا جواب نہیں دیا۔ انٹرنیشنل کرائسس گروپ کے جوست ہلٹر مین نے کہا کہ غزہ میں حماس کی مضبوط گرفت اسرائیل کے لیے ایک مشکل صورتحال پیش کرتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اسرائیل کے پاس دو انتخاب ہیں: مستقبل میں لڑائی جاری رکھے اور لوگوں کو مارے – اور یہ پچھلے 15 ماہ میں کامیاب نہیں ہوا – یا پھر ایسا انتظام قائم کرے جہاں فلسطینی اتھارٹی حماس کی رضا مندی سے غزہ پر کنٹرول کرے۔
ہلٹر مین نے کہا کہ حماس کی فوجی صلاحیت کا اندازہ لگانا مشکل ہے کیونکہ اس کے راکٹ کے ذخائر خفیہ ہیں اور اس کے بہترین تربیت یافتہ جنگجوؤں میں سے کئی مارے جا چکے ہیں، لیکن حماس غزہ میں اب بھی سب سے غالب مسلح گروپ ہے:
انہوں نے کہا کہ کسی بھی بات چیت میں فلسطینی اتھارٹی کی غزہ پر حماس کی رضا مندی کے بغیر حکومت قائم کرنے کا ذکر نہیں ہو رہا جبکہ حماس کے سینئر افسران نے اتحادی حکومت کی حمایت کا اظہار کیا ہے، فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس، جو حماس کے طویل مدتی مخالف ہیں، نے ابھی تک اپنی رضا مندی ظاہر نہیں کی۔
عباس کے دفتر اور فلسطینی اتھارٹی نے تبصرے کی درخواست کا جواب نہیں دیا۔
تازہ مذاکرات
جنگ بندی کی شرائط کے تحت اسرائیل کو وسطی غزہ سے اپنے فوجیوں کو واپس بلانا ہوگا اور ابتدائی چھ ہفتوں کے مرحلے کے دوران فلسطینیوں کو شمال میں واپسی کی اجازت دینی ہوگی، اس عرصے کے دوران کچھ یرغمالیوں کو رہا کیا جائے گا۔
جنگ بندی کے 16 ویں دن سے دونوں فریقوں کو دوسرے مرحلے پر بات چیت کرنا ہوگی، جس میں مستقل جنگ بندی اور اسرائیلی فوجیوں کا مکمل انخلا شامل ہونے کی توقع ہے۔
تعمیر نو، جس پر اربوں ڈالر لاگت آئے گی اور یہ کئی سالوں تک جاری رہے گی، صرف تیسرے اور آخری مرحلے میں شروع ہوگی۔
اس معاہدے نے اسرائیل میں رائے کو تقسیم کر دیا ہے۔
اگرچہ اتوار کے روز ابتدائی 3 یرغمالیوں کی واپسی پر بڑے پیمانے پر جشن منایا گیا تھا ، لیکن بہت سے اسرائیلی چاہتے ہیں کہ حماس کو 7 اکتوبر 2023 کو اسرائیل پر حملے کے لئے تباہ کردیا جائے جس میں 1،200 افراد ہلاک اور 250 سے زیادہ یرغمال بنائے گئے تھے۔
جنگ بندی کے نفاذ سے پہلے ہی نیتن یاہو کی کابینہ کے ارکان نے کہا تھا کہ وہ یرغمالیوں کی وطن واپسی کے بعد حماس کو اقتدار سے ہٹانے کے لیے جنگ میں واپسی کے حق میں ہیں۔
دائیں بازو کے تین وزراء نے استعفیٰ دے دیا ہے۔ وزیر خارجہ گیدون سار نے اتوار کے روز کہا کہ اگر غزہ کی پٹی میں حماس برسراقتدار رہتی ہے تو دونوں فریقوں کے لیے امن، استحکام اور سلامتی کا کوئی مستقبل نہیں ہے۔
حماس کے مسلح ونگ کے ترجمان ابو عبیدہ نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ عسکریت پسند گروپ جنگ بندی کی شرائط کا احترام کرے گا اور اسرائیل پر بھی زور دیا کہ وہ بھی ایسا ہی کرے۔
پندرہ ماہ کی جنگ نے غزہ کو ملبے کا ڈھیر بنادیا ہے، بمباری سے عمارتیں اور پناہ گزین کیمپ میں مکانات تباہ ہوگئے ہیں جہاں ہزاروں مایوس لوگ سردیوں کی ٹھٹھرتی ہوا سے پناہ لے رہے ہیں اور جو بھی امداد انہیں پہنچ رہی ہے، اس پر گزارہ کر رہے ہیں۔
فلسطینی صحت حکام کے مطابق 46,000 سے زائد افراد شہید ہو چکے ہیں۔
جنگ بندی کے معاہدے میں غزہ تک روزانہ 600 امدادی ٹرک پہنچانے کی شرط رکھی گئی ہے۔
حماس کے زیر انتظام انتظامیہ کے ترجمان الثوبطہ نے کہا کہ وہ امدادی راستوں اور گوداموں کی سیکورٹی کے حوالے سے اقوام متحدہ کے اداروں اور بین الاقوامی امدادی تنظیموں کے ساتھ رابطے میں ہیں لیکن ایجنسیاں امداد کی تقسیم کا کام سنبھال رہی ہیں۔
نقصانات سے متعلق رواں ماہ جاری ہونے والے اقوام متحدہ کے تخمینے کے مطابق اسرائیل کی بمباری کے بعد غزہ میں موجود پانچ کروڑ ٹن سے زائد ملبے کو صاف کرنے میں 21 سال لگ سکتے ہیں اور اس پر 1.2 ارب ڈالر تک لاگت آسکتی ہے۔
اتوار کے روز جب حماس کی سیکورٹی فورسز سڑکوں پر پریڈ کر رہی تھیں تو کچھ رہائشیوں نے اس بات پر فخر کا اظہار کیا تھا کہ وہ اس حملے میں بچ گئے ہیں۔
فیکٹری میں کام کرنے والے 58 سالہ صلاح ابو رازق کا کہنا تھا کہ مجھے ایک ایسے ملک کا نام بتائیں جو 15 ماہ تک اسرائیل کی جنگی مشینوں کا مقابلہ کر سکے۔
انہوں نے جنگ کے دوران غزہ کے بھوکے باشندوں میں امداد تقسیم کرنے میں مدد کرنے اور سیکورٹی کے ایک اقدام کو نافذ کرنے کی کوشش کرنے پر حماس کی تعریف کی۔
ابو رازق نے کہا کہ حماس ایک نظریہ ہے اور آپ کسی نظریے کو ختم نہیں کر سکتے۔ کئی افراد اسرائیل پر حماس کے حملے کے سبب مشتعل ہوئے کیوں کہ ان کا کہنا تھا کہ اس کے نتیجے میں غزہ تباہ ہوگیا۔
خان یونس میں بے گھر ہونے والے غزہ سٹی کے سول انجینئر 30 سالہ امین نے کہا کہ ہمارے پاس گھر، ہوٹل اور ریستوران تھے، ہمارے پاس ایک زندگی تھی، آج ہمارے پاس کچھ بھی نہیں ہے، تو یہ کیسی فتح ہے؟، جب جنگ رک جائے گی تو حماس کو غزہ پر اکیلے حکومت نہیں کرنی چاہیے۔
کوئی حریف نہیں
فلسطینی اتھارٹی کا کہنا ہے کہ وہ واحد حکومت ہے جس کے پاس جنگ کے بعد غزہ کو چلانے کی قانونی حیثیت ہے مگر اس کا غزہ میں کوئی اثر و رسوخ نہیں اور عوامی حمایت بھی کم ہے۔
سنہ 2007 میں جب حماس نے ایک مختصر خانہ جنگی کے بعد حریف دھڑے فتح کے زیر اثر فلسطینی اتھارٹی کو نکال دیا تھا تب سے اس نے غزہ میں حزب اختلاف کو سر اٹھانے نہیں دیا۔
ایران کی مالی مدد سے حماس نے ایک خوفناک سیکورٹی نظام اور ایک فوجی تنظیم تیار کی، جو ایک وسیع سرنگوں کے نیٹ ورک کے ارد گرد قائم ہے - جس کا بیشتر حصہ اسرائیل کے مطابق اس کی فوج نے تباہ کردیا ہے۔
اسرائیل نے جنگ کے بعد غزہ کے لیے عارضی تصوارت پیش کیے، جن میں مقامی قبیلوں کے سرداروں کی شمولیت بھی شامل تھی- جن میں سے کچھ کو فوراً حماس نے قتل کر دیا - یا غزہ کی شہری سوسائٹی کے ایسے اراکین کو استعمال کرنا جن کا کوئی عسکری تعلق نہیں تھا، تاکہ وہ انتظامات چلا سکیں۔
سفارت کار بین الاقوامی امن دستوں سے متعلق ماڈلز پر تبادلہ خیال کر رہے ہیں، جن میں متحدہ عرب امارات اور امریکہ کو دیگر ممالک کے ساتھ عارضی طور پر غزہ کی حکمرانی، سلامتی اور تعمیر نو کی نگرانی کرتے ہوئے دیکھا جائے گا جب تک کہ فلسطینی اتھارٹی کی اصلاحات مکمل ہو کر اقتدار سنبھالنے کے قابل نہ ہو جائے۔
ایک اور ماڈل، جسے مصر کی حمایت حاصل ہے، میں فتح اور حماس دونوں پر مشتمل ایک مشترکہ کمیٹی فلسطینی اتھارٹی کی نگرانی میں غزہ کو چلائے گی۔
تل ابیب میں موشے دیان سینٹر فار مڈل ایسٹرن اینڈ افریقن اسٹڈیز میں کام کرنے والے سابق اسرائیلی ملٹری انٹیلی جنس افسر مائیکل ملشٹین نے حماس کی جانب سے اتحاد کی حکومت پر بات چیت کی عوامی آمادگی کو ظاہری قرار دیا۔
انہوں نے کہا جب تک حماس پردہ معاملات چلاتی رہے گی انہیں اس بات سے فرق نہیں پڑے گا کہ کوئی بھی کمیٹی قائم کردی جائے۔
پیر کو عہدہ سنبھالنے کے فوراً بعد ٹرمپ سے جب غزہ جنگ بندی کے معاہدے پر عملدرآمد سے متعلق سوال کیا گیا تو انہوں نے شکوک و شبہات کا اظہار کیا، جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا وہ وہ اس بات پر پختہ یقین رکھتے ہیں کہ معاہدے کے تینوں مراحل پر عملدرآمد ہو گا۔ انہوں نے اس پر مزید وضاحت نہیں دی۔
ٹرمپ کیمپ کے ترجمان نے تبصرہ کرنے کی درخواست کا جواب نہیں دیا۔