امریکی عہدیدار اور پناہ گزینوں کے حقوق کے علمبردار نے کہا ہے کہ امریکی حکومت نے تقریباً 1,660 افغانوں کو امریکہ میں پناہ کی اجازت دی تھی، جن میں حاضر سروس امریکی فوجیوں کے خاندان کے افراد بھی شامل ہیں، لیکن صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حکم کے تحت امریکہ کے پناہ گزین پروگرام کو معطل کرنے کی وجہ سے ان کی پروازیں منسوخ کر دی گئی ہیں۔
اس گروپ میں ایسے بچے بھی شامل ہیں جو اپنے خاندان کے ساتھ امریکہ میں ملنے کے منتظر ہیں، اور وہ افغان بھی شامل ہیں جو طالبان کے انتقامی کارروائیوں کے خطرے میں ہیں کیونکہ انہوں نے سابق امریکی حمایت یافتہ افغان حکومت کے لیے لڑائی کی تھی ۔ یہ بات افغان ایواکیوئی اتحاد کے سربراہ شان وان ڈائور اور امریکی عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے پر بتائی ہے۔
امریکہ کا یہ فیصلہ ان ہزاروں افغانوں کو بھی بے یقینی کی حالت میں چھوڑ دیتا ہے جنہیں امریکہ میں پناہ گزینی کی اجازت دی گئی ہے لیکن ابھی تک انہیں افغانستان یا ہمسایہ ملک پاکستان سے امریکہ پہنچنے کے لیے پروازیں نہیں مل سکیں۔
ٹرمپ نے امیگریشن کریک ڈاؤن کو 2024 کی انتخابی مہم کا ایک بڑا وعدہ قرار دیا تھا، جس سے امریکی پناہ گزینوں کے پروگراموں کی قسمت پر پانی پھر گیا۔
وائٹ ہاؤس اور اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ، جو امریکی پناہ گزینوں کے پروگراموں کی نگرانی کرتے ہیں، نے فوری طور پر تبصرہ کرنے کی درخواستوں کا جواب نہیں دیا۔
وان ڈیور نے کہا کہ افغان اور ہمارے حامی لوگ گھبرا رہے ہیں۔ مجھے آج ہی اپنے فون کو چار بار ریچارج کرنا پڑا ہے کیونکہ بہت سے لوگ مجھے کال کر رہے ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ہم نے انہیں متنبہ کیا تھا کہ ایسا ہونے جا رہا ہے لیکن انہوں نے ویسے بھی ایسا کیا۔ انہوں نے ٹرمپ کی عبوری ٹیم کے ساتھ رابطوں کے بارے میں کہا کہ انہیں امید ہے کہ وہ اس پر نظر ثانی کریں گے ۔
وان ڈیور کی تنظیم وہ اہم اتحاد ہے جو طالبان کی جانب سے کابل پر قبضے کے بعد سے امریکی حکومت کے ساتھ مل کر افغانوں کو نکالنے اوران کی آباد کاری کے لیے کام کر رہی ہے کیونکہ آخری مرحلے میں امریکی افواج دو دہائیوں کی جنگ کے بعد اگست 2021 میں افغانستان سے چلی گئی تھیں۔
سابق صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ کابل سے امریکی افواج کے انخلا کے بعد سے اب تک تقریبا 2 لاکھ افغان باشندوں کو امریکہ لا چکی ہے۔
توقع ہے کہ ٹرمپ پیر کو دوسری مدت کے لیے حلف اٹھانے کے بعد جن درجنوں انتظامی احکامات پر دستخط کریں گے، ان میں سے ایک پر کم از کم 4 ماہ کے لیے امریکی پناہ گزین پروگرام معطل کر دیے گئے ہیں۔
وائٹ ہاؤس کی نئی ویب سائٹ میں کہا گیا ہے کہ ٹرمپ پناہ گزینوں کی آبادکاری معطل کر رہے ہیں کیونکہ کمیونٹیز کو تارکین وطن کی بڑی اور غیر پائیدار آبادیوں کو پناہ دینے پر مجبور کیا گیا ہے، جس سے کمیونٹی کی حفاظت اور وسائل متاثر ہو رہے ہیں۔
وان ڈیور نے کہا کہ ہم جانتے ہیں کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ والدین یا کسی قانونی سرپرست کے بغیر بچے، (افغان) ہمارے فوجیوں کے ساتھ تربیت، لڑائی اور ہلاک یا زخمی ہونے والے افغان ساتھی اورحاضرسروس امریکی فوجیوں کے خاندان پھنس جائیں گے۔
وان ڈیور اور امریکی عہدیدار نے کہا کہ امریکہ میں پناہ گزینوں کے طور پر آباد ہونے کی منظوری پانے والے افغانوں کو اب سے لے کر اپریل کے درمیان کابل سے آنے والی پروازوں سے کی فہرست سے ہٹایا جا رہا ہے۔
ایوان نمائندگان کی خارجہ تعلقات کی کمیٹی میں اقلیتی ڈیموکریٹس نے اس اقدام کی مذمت کرتے ہوئے ایکس پر ایک پوسٹ میں کہا کہ “ایسا ہی نظر آتا ہے۔ مصدقہ افغان اتحادیوں کو طالبان کے رحم و کرم پر چھوڑنا شرمناک ہے۔
انہوں نے کہا کہ ان میں امریکہ میں پیدا ہونے والے افغان نژاد امریکی اہلکاروں کے خاندان کے تقریبا 200 ارکان یا ان افغانوں کے خاندان کے ارکان شامل ہیں جو امریکہ آئے، فوج میں شامل ہوئے اور شہریت حاصل کی۔
وین ڈیور اور امریکی عہدیدار نے بتایا کہ جن افراد کو پروازوں سے ہٹایا جا رہا ہے ان میں سابق امریکی حمایت یافتہ کابل حکومت کے لیے لڑنے والے افغانوں کی ایک نامعلوم تعداد اور افغان پناہ گزینوں یا افغان والدین کے تقریبا 200 بے سہارا بچے بھی شامل ہیں جن کے بچوں کو امریکی انخلا کے دوران اکیلے امریکہ لایا گیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ امریکی ٹھیکیداروں یا امریکہ سے وابستہ تنظیموں کے لیے کام کرنے کی وجہ سے پناہ گزین کا درجہ حاصل کرنے کے اہل ہونے والے افغانوں کی ایک نامعلوم تعداد بھی اس گروپ میں شامل ہے۔