وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ پاکستان رواں سال جون تک پانڈا بانڈ جاری کرنے کا ارادہ رکھتا ہے جس کا مقصد چین کی کیپٹل مارکیٹ میں ملک کی موجودگی کو بڑھانا ہے۔
ہانگ کانگ کے ٹی وی بی نیوز چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے وزیر خزانہ نے کہا کہ پانڈا بانڈ کے اجراء کے ذریعے پاکستان چینی سرمایہ کاروں سے تقریبا دو سو ملین امریکی ڈالر حاصل کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ اس اقدام کی مالیت تقریبا 200 ملین ڈالر سے 250 ملین ڈالر ہونے کی توقع ہے ، لیکن ”یہ رقم کا سوال نہیں ہے۔“ انہوں نے کہا، “اہم بات یہ ہے کہ ہم افتتاحی ایشو پر جائیں اور پھر، ایک بار جب یہ کامیاب ہو جاتا ہے، تو ہم اسے ہمیشہ ٹیپ پر رکھ سکتے ہیں۔
اورنگزیب نے کہا کہ اب تک دنیا کی دوسری سب سے بڑی کیپٹل مارکیٹ کا استعمال نہ کرنا ہماری غلطی تھی۔ انہوں نے مزید کہا، “ہم بہت خواہش رکھتے ہیں کہ اس کیلنڈر سال کے دوران، ہم ایسا کریں۔
اگرچہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سے 7 ارب ڈالر کا بیل آؤٹ پیکج حاصل کرنے کے بعد سے پاکستان کی خودمختار کریڈٹ ریٹنگ کو اپ گریڈ کیا گیا ہے ، لیکن یہ ابھی تک ”سی سی سی“ یا ”سی اے اے“ کی سطح سے باہر نہیں نکلا ہے جیسا کہ تین بڑی عالمی ایجنسیوں نے اندازہ لگایا ہے۔ یہ عالمی مارکیٹ میں فنانسنگ کے لئے اس کے آپشنز کو شدید طور پر محدود کرتا ہے۔
وزیر خزانہ نے آئی ایم ایف کی شرائط کے مطابق اصلاحات کے ذریعے ”بی“ ریٹنگ زون تک پہنچنے کی امید کا اظہار کیا ہے، انہوں نے ملک کے فنڈنگ ذرائع کو ”متنوع“ بنانے کی اہمیت پر زور دیا۔ ہانگ کانگ کی اسٹاک مارکیٹ بھی اس کا حصہ ہے۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ شہر میں ٹرکوں اور بسوں کے لیے ٹائر بنانے والے پاک چین مشترکہ منصوبے سروس لانگ مارچ کی ایکویٹی لسٹنگ کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔ انہوں نے ہانگ کانگ میں پاکستانی کمپنیوں کی جانب سے پرائمری اور سیکنڈری لسٹنگ کے مستقبل کے مواقع پر نظر ڈالتے ہوئے کہا، “یہ مشترکہ کمپنیاں ایکویٹی (فنڈز) جمع کرنا چاہتی ہیں، اور بین الاقوامی مارکیٹوں میں، ہانگ کانگ ان مشترکہ منصوبوں کے لئے ایک بہت ہی واضح انتخاب ہے۔
پاکستان نے کئی دہائیوں سے چین کے ساتھ قریبی تعلقات استوار کیے ہیں جس کی مثال اربوں ڈالر کے پاک چین اقتصادی راہداری انفراسٹرکچر منصوبے سے ملتی ہے۔
اورنگزیب نے اس بات پر زور دیا کہ راہداری بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کا ایک ”فلیگ شپ“ ہے ، جو چین کے صدر شی جن پنگ کی قیادت میں ایک اہم اقتصادی اور جغرافیائی سیاسی مہم ہے۔
یہ پوچھے جانے پر کہ آئی ایم ایف کی شرائط چین کے ساتھ منصوبہ بند منصوبوں کو کس طرح متاثر کر سکتی ہیں - کیونکہ نئی ٹیکس مراعات اور نئے اقتصادی زون قائم کرنے کی اجازت نہیں ہے - پاکستانی وزیر خزانہ نے اس طرح کے خدشات کو مسترد کردیا۔
انہوں نے کہا، ”یہ واقعی اتنا بڑا معاملہ نہیں ہے جتنا یہ بنایا جا رہا ہے“، کیونکہ بہت سے موجودہ منصوبے ہیں جن پر پہلے عمل درآمد کی ضرورت ہے. تاہم، ایک اہم معاملہ یہ ہے کہ پاکستان میں چینی شہریوں اور منصوبوں کے خلاف عسکریت پسندوں کے حملوں کے بعد سلامتی کی ضمانت کیسے دی جائے۔
بیجنگ نے بار بار اسلام آباد پر زور دیا ہے کہ وہ حفاظت کو بہتر بنانے کے لیے مزید اقدامات کرے۔ اورنگزیب نے کہا کہ ان کی حکومت نہ صرف چینیوں بلکہ ملک میں موجود تمام غیر ملکی شہریوں کی حفاظت کے معاملے پر اعلیٰ ترین سطح پر توجہ دیتی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ زمینی صورتحال دراصل اس سے کہیں بہتر ہے جو ہم خبروں اور مختلف چینلوں پر دیکھتے ہیں۔
اورنگزیب کا کہنا ہے کہ پاکستان کی حکومت ملک میں موجود تمام غیر ملکی شہریوں کی سکیورٹی پر ’اعلیٰ ترین سطح پر سب سے زیادہ توجہ‘ دیتی ہے۔