سعودی عرب کے وزیر توانائی شہزادہ عبدالعزیز بن سلمان نے کہا ہے کہ سعودی عرب یورینیم کی فروخت سمیت تمام معدنیات سے منافع کمانے کا ارادہ رکھتا ہے۔
شہزادہ عبدالعزیز نے ظہران میں ایک کانفرنس سے خطاب کے دوران جوہری ری ایکٹرز کے لیے یورینیم ایندھن کی تیاری میں استعمال ہونے والی معدنیات کے پاؤڈر کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ہم اسے افزودہ اور فروخت کریں گے اور ہم ’یلو کیک‘ بنائیں گے۔
اسے محفوظ ہینڈلنگ کی ضرورت ہوتی ہے حالانکہ اس سے تابکاری کے کچھ خطرات پیدا ہوتے ہیں۔
سعودی عرب کا ایک نیا ایٹمی پروگرام ہے جسے وہ بڑھا کر بالآخر یورینیم کی افزودگی تک لے جانا چاہتا ہے، یہ ایک حساس شعبہ ہے کیونکہ اس کا تعلق ایٹمی ہتھیاروں کے ساتھ بھی ہے۔ ریاض نے کہا ہے کہ وہ ایٹمی توانائی کو اپنے توانائی کے ذخیرے کو متنوع بنانے کے لیے استعمال کرنا چاہتا ہے۔
یہ واضح نہیں ہے کہ سعودی جوہری عزائم کہاں ختم ہوں گے کیونکہ ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے 2018 میں کہا تھا کہ اگر علاقائی حریف ایران ایسا کرتا ہے تو سعودی عرب جوہری ہتھیار تیار کرے گا۔
سعودی عرب کے پڑوس میں واقع خلیجی ریاست متحدہ عرب امارات (یو اے ای) میں عرب دنیا کا پہلا ملٹی یونٹ آپریٹنگ نیوکلیئر انرجی پلانٹ ہے۔
متحدہ عرب امارات نے وعدہ کیا ہے کہ وہ خود یورینیم افزودہ نہیں کرے گا اور استعمال شدہ ایندھن کو دوبارہ پراسیس نہیں کرے گا۔
سعودی عرب نے گزشتہ سال کہا تھا کہ وہ اقوام متحدہ کے جوہری نگران ادارے کی جانب سے اپنی جوہری تنصیبات کی لائٹ ٹچ ( کم سے کم /برائے نام) نگرانی ختم اور 2024 کے آخر تک باقاعدہ حفاظتی اقدامات کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔
ریاض نے ابھی تک اپنے پہلے جوہری ری ایکٹر کو فعال نہیں کیا ہے، جس کے تحت اس کے پروگرام کی نگرانی اب بھی معمولی مقداروں کے پروٹوکول (ایس کیو پی) کے تحت کی جا سکتی ہے، جو بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی کے ساتھ ایک معاہدہ ہے جو کم ترقی یافتہ ریاستوں کو بہت سی رپورٹنگ ذمہ داریوں اور معائنے سے مستثنیٰ قرار دیتا ہے۔