بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی منیجنگ ڈائریکٹر کرسٹالینا جارجیوا نے جمعے کے روز صحافیوں کو بتایا کہ عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) 17 جنوری کو ورلڈ اکنامک آؤٹ لک جاری کرتے ہوئے مستحکم عالمی نمو اور مہنگائی کی رفتار میں مسلسل کمی کی پیش گوئی کرے گا۔
جارجیوا نے کہا کہ امریکی معیشت توقعات سے کافی بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کر رہی ہے، اگرچہ نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ کی تجارتی پالیسیوں کے بارے میں غیر یقینی صورتحال ہے جس کی وجہ سے عالمی معیشت کو درپیش مشکلات میں اضافہ ہو رہا ہے اور طویل مدتی شرح سود میں اضافہ ہو رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ مہنگائی امریکی فیڈرل ریزرو کے ہدف کے قریب پہنچ رہا ہے، اور اعداد و شمار مستحکم لیبر مارکیٹ کو ظاہر کرتے ہیں، فیڈ شرح سود میں مزید کمی کرنے سے پہلے مزید اعداد و شمار کا انتظار کر سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ مجموعی طور پر شرح سود کچھ عرصے تک کچھ زیادہ رہنے کی توقع ہے۔
آئی ایم ایف 17 جنوری کو ٹرمپ کے عہدہ سنبھالنے سے چند روز قبل اپنے عالمی منظرنامے سے متعلق تازہ ترین معلومات جاری کرے گا۔
جارجیوا کا تبصرہ اس سال آئی ایم ایف کے بدلتے ہوئے عالمی نقطہ نظر کا پہلا اشارہ ہے لیکن انہوں نے کوئی تفصیلی تخمینہ نہیں دیا۔
اکتوبر میں آئی ایم ایف نے امریکہ، برازیل اور برطانیہ کے لیے 2024 کی اقتصادی ترقی کی پیش گوئیوں میں اضافہ کیا تھا لیکن چین، جاپان اور یورو زون کے لیے ان میں کٹوتی کی تھی۔
فی الوقت انہوں نے 2024 کے لیے عالمی نمو کے اپنے تخمینہ میں کوئی تبدیلی نہیں کی اور جولائی میں متوقع 3.2 فیصد شرح نمو کو برقرار رکھا۔ انہون نے 2025 کے لیے عالمی نمو کے تخمینہ کو 3.2 فیصد سے ایک فیصد کا دسویں حصہ کم کر دیا جبکہ انہوں نے خبردار کیا کہ دنیا بھر میں وسط مدتی ترقی 5 سال کے دوران 3.1 فیصد تک کم ہوجائے گی جو کہ اس کی وبا (کوویڈ 19) سے پہلے کی شرح سے خاصی کم ہے۔
جارجیوا نے مزید کہا کہ ایسا ہونا غیر متوقع نہیں کیونکہ امریکی معیشت کے حجم اور کردار کے پیش نظر دنیا بھر میں آنے والی انتظامیہ (امریکا) کی پالیسی سمتوں میں گہری دلچسپی پائی جاتی ہے، خاص طور پر محصولات، ٹیکسوں، ضوابط میں نرمی اور حکومتی کارکردگی کے حوالے سے اس پر گہری نظر رکھی جارہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ غیر یقینی صورتحال خاص طور پر تجارتی پالیسی کے راستے کے حوالے سے بہت زیادہ ہے جو عالمی معیشت کو درپیش مشکلات میں اضافہ کر رہی ہے، خاص طور پر ان ممالک اور علاقوں کے لیے جو عالمی سپلائی چینز میں زیادہ جڑے ہوئے ہیں، ان میں درمیانے درجے کی معیشتیں اور ایشیا جیسے علاقے شامل ہیں۔
جارجیوا نے کہا کہ یہ بہت غیر معمولی بات ہے کہ یہ غیر یقینی صورتحال طویل مدتی سود کی شرحوں میں اضافے کی صورت میں ظاہر ہو رہی ہے حالانکہ قلیل مدتی سود کی شرحوں میں کمی آئی ہے جو کہ حالیہ تاریخ میں نہیں دیکھی گئی۔
ان کا مزید کہنا ہے کہ آئی ایم ایف نے مختلف علاقوں میں متضاد رجحانات دیکھے، جن کے مطابق یورپی یونین میں ترقی تھوڑی سی رک جانے کی توقع ہے اور بھارت میں تھوڑی سی کم دیکھنے کو ملے گی جبکہ برازیل کو کچھ زیادہ مہنگائی کا سامنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ چین میں جو کہ دنیا کی دوسری سب سے بڑی معیشت ہے، آئی ایم ایف نے مہنگائی میں کمی اور مقامی سطح پر طلب کے ساتھ جاری چیلنجز کو نوٹ کیا ہے۔
جارجیوا نے کہا کہ یہ بات قابل ذکر ہے کہ مہنگائی کا مقابلہ کرنے کے لئے ضروری بلند شرح سود نے عالمی معیشت کو کساد بازاری میں نہیں دھکیلا ہے ، لیکن افراط زر کی پیش رفت مختلف ہے جس کا مطلب ہے کہ مرکزی بینکروں کو مقامی اعداد و شمار کی احتیاط سے نگرانی کرنے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا کہ مضبوط امریکی ڈالر ممکنہ طور پر ابھرتی ہوئی مارکیٹ معیشتوں اور خاص طور پر کم آمدنی والے ممالک کے لئے فنڈنگ کی لاگت میں اضافے کا سبب بن سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ زیادہ تر ممالک کو کوویڈ وبا کے دوران زیادہ اخراجات کے بعد مالی اخراجات میں کمی کرنے اور پائیدار طریقے سے ترقی کو فروغ دینے کے لئے اصلاحات کو اپنانے کی ضرورت ہے ۔ انہوں نے مزید کہا کہ زیادہ تر معاملات میں یہ ان کی ترقی کے امکانات کی حفاظت کرتے ہوئے کیا جاسکتا ہے۔
انہوں نے واضح کیا کہ ممالک ادھار لے کر اپنے معاشی مسائل حل نہیں کر سکتے بلکہ انہیں پائیدار ترقی کے لئے بنیادی اصلاحات اوراقتصادی حکمت عملی کے ذریعے ان مشکلات سے باہر نکل سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ دنیا کے لئے درمیانے درجے کی ترقی کے امکانات دہائیوں میں سب سے کم ہیں۔
انہوں نے کہا کہ کم آمدنی والے ممالک، اصلاحات کی کوششوں کے باوجود ایسی صورتحال سے دوچار ہیں کہ کوئی بھی نیا جھٹکا انہیں کافی منفی طور پر متاثر کرے گا۔