بیرونی فنڈنگ تک محدود رسائی کے سبب بینکنگ سیکٹر کی جانب سے سرکاری قرضوں میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے اور اس کے نتیجے میں بینکوں کے مقامی سرکاری قرضوں کا حجم ان کے اثاثوں کے تقریبا 60 فیصد تک بڑھ گیا ہے، یعنی ابھرتی ہوئی مارکیٹ کی معیشتوں کے اوسط سے تین گنا زیادہ۔ ڈپازٹرز کی محدود بنیاد کے ساتھ بینکوں نے بنیادی طور پر اوپن مارکیٹ آپریشنز (او ایم اوز) کے ذریعے اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) کی جانب سے فراہم کردہ لیکویڈیٹی کے ذریعے حکومت کی اضافی طلب کو پورا کیا ہے۔
چونکہ حکومتی قرضے نجی قرضوں کی نسبت زیادہ پرکشش ہیں، اس نے نجی قرضوں کو نمایاں طور پر ختم کر دیا ہے۔ مزید برآں، تینوں فریقوں یعنی حکومت، کمرشل بینکوں اور مرکزی بینک کے بیلنس شیٹس باہم مربوط ہو گئی ہے۔
اس پیچیدہ سہ فریقی تعلقات کا مطلب یہ ہے کہ ایک شعبے (مثال کے طور پر مالیاتی، مانیٹری پالیسی اور بینکاری کے شعبے) میں پیش رفت یا اقدامات کے معیشت میں وسیع پیمانے پر اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ یہ پالیسی کی شرحوں، نجی قرض، اور نجی سرمایہ کاری اور کھپت کے فیصلوں کے درمیان معاملات متاثر کرکے مانیٹری پالیسی ٹرانسمیشن کی طاقت کو بھی نمایاں طور پر متاثر کرتا ہے —آئی ایم ایف کنٹری رپورٹ نمبر 24/310
وزارت منصوبہ بندی و ترقی نے ’اڑان پاکستان‘ منصوبہ متعارف کرایا ہے جو 2035 تک پاکستان کو ایک ٹریلین ڈالر کی معیشت بنانے کا عزم رکھتا ہے۔ اس پرعزم منصوبے میں صنعتی پیداوار ، تکنیکی ترقی اور مالی اصلاحات پر توجہ مرکوز کی گئی ہے۔
اگرچہ یہ منصوبہ پاکستان کے مستقبل کے لئے ایک جرات مندانہ منظر نامہ پیش کرتا ہے لیکن بیرونی مالی امداد پر ملک کے شدید انحصار اور جاری بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) پروگرام کی پاسداری کو دیکھتے ہوئے اس کی عملی صلاحیت اور نفاذ پر شکوک و شبہات پیدا ہوتے ہیں۔
پاکستان کی موجودہ مالی اور اقتصادی صورتحال ان اہداف کے حصول پر خاطر خواہ شکوک و شبہات پیدا کرتی ہے، کیونکہ یہ اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ قرضوں پر مبنی ترقی سے پیدا ہونے والے گہرے اسٹرکچرل مسائل اور چیلنجز کو حل کیے بغیر ان اہداف کو حاصل کرنا ممکن نہیں ہے۔
پاکستان کی آئی ایم ایف کے ساتھ مسلسل وابستگیاں، خاص طور پر ایکسٹینڈڈ فنڈ فسیلٹی (ای ایف ایف) پروگرامز کے تحت اس کی معیشت کی نازک حالت کو ظاہر کرتی ہیں۔ آئی ایم ایف کی جانب سے مالی امداد کی حد 5,320 ملین سعودی ریال (تقریباً 7 ارب امریکی ڈالر) رکھی گئی ہے اور 2027 تک یہ رقم 8,774 ملین سعودی ریال (کوٹے کا 432 فیصد) تک پہنچنے کی توقع ہے جس سے پاکستان کے لیے مالیاتی خطرات بہت بڑے اور پیچیدہ ہیں۔
ملک کے مجموعی زرِ مبادلہ کے ذخائر، جس کا تخیمنہ مالی سال 2025 میں 12.8 ارب امریکی ڈالر سے بڑھ کر مالی سال 2028 تک 22.5 ارب امریکی ڈالر تک پہنچنے کا ہے، صرف 3.1 ماہ کی درآمدی احاطے کے ساتھ اب بھی معمولی ہیں۔ اگر آئی ایم ایف کی حمایت نہ ہو تو یہ ذخائر 1.06 ارب امریکی ڈالر تک کم ہو جائیں گے جو پاکستان کی بیرونی پوزیشن کی ناپائیداری کو اجاگر کرتا ہے۔ ایسا انحصار ملک کی معیشت کی بنیادی کمزوری کو ظاہر کرتی ہے اور اس کی صلاحیت پر سوالات اٹھاتی ہے کہ آیا یہ خود کو بیرونی امداد کے بغیر مستقل طور پر برقرار رکھ سکتا ہے۔
’اوران پاکستان‘ منصوبے میں اہم مالیاتی اہداف مقرر کیے گئے ہیں، جن میں مالی سال 2029 تک ٹیکس ٹو جی ڈی پی تناسب کو موجودہ 9.3 فیصد سے بڑھا کر 15.5 فیصد کرنا اور اسی عرصے میں مالی خسارے کو 7.8 فیصد سے کم کرکے 4.2 فیصد کرنا شامل ہے۔ تاہم یہ اہداف جامع ٹیکس اصلاحات اور محصولات کو متحرک کرنے پر منحصر ہیں - دونوں کو تاریخی طور پر پاکستان میں زبردست مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
غیر رسمی معیشت، ٹیکس چوری اور محدود ٹیکس بیس محصولات کی وصولی میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔ مزید برآں، سرکاری قرض، جو مالی سال 2023 ء تک جی ڈی پی کا 74.8 فیصد تھا، ترقی کے لئے دستیاب مالی گنجائش پر بہت زیادہ دباؤ ڈالتا ہے۔ آئی ایم ایف نے مالیاتی استحکام کو ترجیحی اہمیت دی ہے لیکن موجودہ اقتصادی فریم ورک کے اندر اس کا حصول پریشان کن معلوم ہوتا ہے۔
’اڑان پاکستان‘ کا ایک اہم جزو اس کی ترقی کے لیے بیرونی مالی اعانت پر زور دینا ہے۔ قلیل مدتی قرضوں کی واپسی کے لیے 16.8 ارب امریکی ڈالر کی اور مالی سال 2025 کے لیے دو طرفہ اور کثیرالجہتی شرکاء سے اضافی 2.5 ارب امریکی ڈالر کی مالی اعانت کے وعدے پاکستان کی بیرونی قرضوں پر مسلسل انحصار کو ظاہر کرتے ہیں۔ اگرچہ یہ وعدے فوری طور پر ریلیف فراہم کرتے ہیں، مگر یہ انحصار کے ایک دائرے کو جاری رکھتے ہیں جو طویل مدتی پائیداری کو کمزور کرتا ہے۔
براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری (ایف ڈی آئی)، جو قرض پر مبنی ترقی کے متبادل کے طور پر کام کر سکتی ہے، جی ڈی پی کے 0.7 فیصد پر برقرار ہے۔ سرمایہ کاری کی یہ کمی ناقص گورننس، سیاسی عدم استحکام اور کاروبار مخالف، ترقی مخالف غیر موافق ماحول کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔
’اڑان پاکستان‘ کا ایک تفصیلی اور تنقیدی مطالعہ اس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ وہ ان نظامی مسائل کو مناسب طریقے سے حل کرنے میں ناکام رہا ہے، اس کے بجائے بڑے پیمانے پر بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں پر توجہ مرکوز کی گئی ہے جن میں مطلوبہ سرمایہ کاری اور مہارت کی کمی ہے، پائیدار فنڈنگ کے لئے واضح راستے یا قابل ذکر معاشی منافع کی کمی ہے.
ادائیگیوں کے توازن کی پوزیشن ایک اور اہم کمزوری ہے۔ برآمدات جی ڈی پی کے 8.2 فیصد پر جمود کا شکار ہیں جبکہ تجارتی خسارہ جی ڈی پی کا 7.3 فیصد ہے۔ مالی سال 2029 تک اس خسارے کو 5 فیصد تک کم کرنے کی کوششوں کے باوجود زراعت اور صنعت جیسے اہم شعبوں میں ساختی اصلاحات کے انتخاب میں تاخیر پیش رفت کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ زراعت، جو 37.4 فیصد افرادی قوت کو روزگار فراہم کرتی ہے اور جی ڈی پی میں 23.2 فیصد کا حصہ ڈالتی ہے، کم پیداواری صلاحیت اور ناکافی سرمایہ کاری کا شکار ہے۔
صنعتی شعبے کو توانائی کی زیادہ لاگت، حد سے زیادہ ٹیکس، کم قیمت مینوفیکچرنگ اور محدود تکنیکی ترقی جیسے چیلنجز کا بھی سامنا ہے۔ ’اڑان پاکستان‘ نے مالی سال 2029 ء تک برآمدات میں اضافے کے اہداف کی تجویز پیش کی ہے جس میں سالانہ 50 ارب ڈالر ز بھی شامل ہیں لیکن بنیادی کمزوریوں کو دور کرنے کے لئے مطلوبہ انفراسٹرکچر، ہنرمند افرادی قوت اور حل فراہم کیے بغیر ان اعداد و شمار کا حصول انتہائی ناممکن ہے۔
جیسا کہ منصوبے میں زور دیا گیا ہے، قرض پر مبنی ترقی میں اہم خطرات موجود ہیں۔ خصوصی اقتصادی زونز (ایس ای زیڈز) اور قابل تجدید توانائی کے منصوبوں سمیت بنیادی ڈھانچے کی ترقی پر بہت زیادہ زور دیا جاتا ہے۔ اگرچہ یہ منصوبے قلیل مدتی معاشی سرگرمی کو فروغ دے سکتے ہیں ، لیکن بڑھتے ہوئے قرضوں کے طویل مدتی نتائج سنگین ہیں۔ آئی ایم ایف نے بار بار ایس ای زیڈز وغیرہ کی مخالفت کی ہے، غیر مستحکم قرضوں کے جمع ہونے کے خطرات کے بارے میں متنبہ کیا ہے، مالی نظم و ضبط اور ساختی اصلاحات کی ضرورت کو اجاگر کیا ہے، تاہم ’اڑان پاکستان‘ حقیقت پسندانہ اور پائیدار حکمت عملیوں کے بجائے بلند اہداف کو ترجیح دے رہا ہے۔
پاکستان کے پاس کوئی اور آپشن نہیں بچا سوائے اس کے کہ وہ آئی ایم ایف کے پروگرام کی پیروی کرے تاکہ مالی استحکام کو یقینی بنایا جا سکے اور اقتصادی تباہی سے بچا جا سکے۔ ای ایف ایف پروگرام مالیاتی عدم توازن کو حل کرنے اور ذخائر کو دوبارہ بنانے کے لیے ایک فریم ورک فراہم کرتا ہے، لیکن اس کے ساتھ سخت شرائط بھی ہیں۔ ان میں مالیاتی خساروں کو کم کرنا، ٹیکس کی وصولی بڑھانا اور ساختی اصلاحات نافذ کرنا شامل ہیں۔ ’اڑان پاکستان‘ کی کامیابی اس بات پر منحصر ہے کہ یہ شرائط کس قدر بہترین انداز میں پوری ہوتی ہیں۔ اگر آئی ایم ایف پروگرام کی پیروی نہ کی گئی تو اس سے اقتصادی بحالی اور منصوبے میں بیان کردہ طویل مدتی وژن دونوں کو نقصان پہنچنے کا خطرہ ہے۔پائیدار ترقی حاصل کرنے اور بیرونی قرضوں پر انحصار کم کرنے کے لیے پاکستان کو درج ذیل اہم اقدامات کے ذریعے فطری ترقی کی حکمت عملیوں کی طرف رخ کرنا ہوگا:
i. زرعی پیداوار میں اضافہ اہم ہے کیونکہ یہ جی ڈی پی میں نمایاں حصہ ڈالتی ہے اور افرادی قوت کے ایک بڑے حصے کو روزگار فراہم کرتی ہے۔ جدید آبپاشی کی تکنیکوں، درست زراعت، اور فصلوں کی تنوع میں اہداف پر مبنی سرمایہ کاری ترقی کو فروغ دے سکتی ہے۔ اس کے علاوہ، ویلیو چینز کی ترقی اور زرعی مصنوعات کو عالمی طلب کے مطابق ڈھالنا برآمدات کے امکانات کو بڑھا دے گا۔
ii. چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباری اداروں (ایس ایم ایز) کی مدد ضروری ہے ۔ یہ کاروبار روزگار کے مواقع پیدا کرنے اور اقتصادی لچک کے لیے اہم ہیں۔ ایسی پالیسیاں جو قرضوں تک رسائی کو بہتر بنائیں، ضابطوں کی رکاوٹوں کو کم کریں اور اختراع کو فروغ دیں، اس شعبے کے امکانات کو بڑھاسکتی ہیں اور جامع ترقی کو فروغ دے سکتی ہیں۔
iii. اسی طرح برآمدات میں تنوع ناگزیر ہے۔ پاکستان کو کم قیمت کی برآمدات پر انحصار کم کرنا ہوگا۔ مزید برآں، ٹیکنالوجی، فارماسیوٹیکل اور انجینئرنگ کے سامان میں سرمایہ کاری آمدنی کے نئے ذرائع پیدا کر سکتی ہے اور ملک کی عالمی مسابقت کو بڑھا سکتی ہے۔
iv. حکمرانی اور ادارہ جاتی اصلاحات پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جا سکتا۔ اداروں کو مضبوط کرنا، بدعنوانی کے خلاف جنگ لڑنا اور پالیسی میں تسلسل کو یقینی بنانا غیر ملکی سرمایہ کاری کو راغب کرنے اور اقتصادی استحکام کو فروغ دینے کے لیے ضروری ہیں۔
v. ملکی محصولات کو متحرک کرنے کو ترجیح دی جانی چاہئے۔ ٹیکس بیس کو بڑھانے، غیر رسمی معیشت کو مربوط کرنے اور ٹیکس انتظامیہ کے لئے ٹیکنالوجی سے فائدہ اٹھانے سے محصولات کی وصولی کو بہتر بنایا جاسکتا ہے اور مالی خسارے کو کم کیا جاسکتا ہے۔
vi. انسانی سرمائے کی ترقی اہم ہے، عالمی مارکیٹ کی ضروریات کے مطابق تعلیم اور ہنر مندی کی تعمیر کے اقدامات ایک ایسی افرادی قوت تیار کرسکتے ہیں جو مختلف شعبوں میں جدت طرازی اور پیداواری صلاحیت کو آگے بڑھانے کے قابل ہو۔
vii. بیرونی قرضوں پر انحصار کم سے کم کیا جائے۔ پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ سمیت ایکویٹی پر مبنی سرمایہ کاری کی طرف منتقلی سے مالی کمزوریوں کو کم کیا جاسکتا ہے اور طویل مدتی استحکام کو فروغ مل سکتا ہے۔
عزم سے بھرپور ’اڑان پاکستان‘ منصوبہ اقتصادی تبدیلی کے لیے ایک امید افزا منظرنامہ پیش کرتا ہے لیکن اس کی کامیابی حکومت کی اس صلاحیت پر منحصر ہے کہ وہ بڑے چیلنجز کا مقابلہ کس طرح کرتی ہے۔ حال ہی میں مکمل ہونے والے آئی ایم ایف کے 3 ارب ڈالر کے 9 ماہ کے اسٹینڈ بائی ارینجمنٹ (ایس بی اے) نے ضروری استحکام فراہم کیا ہے لیکن آگے کا راستہ مشکل اور مطالبات سے بھرپور ہے۔ اس لیے منصوبے کے اہداف کو حاصل کرنے کے لیے پائیدار پالیسیوں، ساختی اصلاحات اور ترقیاتی شراکت داروں کے ساتھ مضبوط تعاون کے لیے مسلسل عزم کی ضرورت ہے تاکہ مارکیٹ کا اعتماد بحال کیا جا سکے اور قرضوں کی پائیداری کو یقینی بنایا جا سکے۔
آئی ایم ایف نے پاکستان اہم اصلاحات اور اس پر عملدر پر زور دیا ہے جس میں ٹیکس بیس کو وسیع کرنا، مالیاتی اداروں کو مضبوط بنانا اور لاگت پر مبنی ٹیرف اور موثر قرضوں کے انتظام کے ذریعے توانائی کے شعبے کی پائیداری میں اضافہ کرنا شامل ہے۔ اس میں انسانی سرمائے، بنیادی ڈھانچے اور سماجی تحفظ میں سرمایہ کاری پر بھی زور دیا گیا ہے تاکہ مالی نظم و ضبط کو یقینی بناتے ہوئے جامع ترقی کو فروغ دیا جاسکے۔
معاشی جمود کو ختم کرنے اور معیار زندگی کو بہتر بنانے کے لئے ریاستی زیر قیادت ترقی کے ماڈل سے مسابقتی، نجی شعبے سے چلنے والی معیشت میں منتقلی ضروری ہے۔ ہمیں موسمیاتی تبدیلیوں نمٹنے، سرکاری اداروں میں اصلاحات، شفاف گورننس اور دانشمندانہ مالیاتی پالیسیوں کے ساتھ مل کر اسٹریٹجک سرمایہ کاری کی بھی اشد ضرورت ہے- یہ سب افراط زر کو کنٹرول اور مستحکم کرنے اور زرمبادلہ کے ذخائر کو مستحکم کرنے اور اسے بڑھانے کیلئے انتہائی ناگزیر ہے۔
’اڑان پاکستان‘ ایجنڈا یقینا تبدیلی کی راہ ہموار کرتا ہے لیکن اس کی کامیابی کا دارومدار قومی اتحاد، سیاسی استحکام، دانشمندانہ پالیسیوں، عزم اور عوامی حمایت پر ہے جو پائیدار خوشحالی اور مالی آزادی کی راہ ہموار کرتی ہے۔