سال 2004 کی سونامی کے دو دہائیوں بعد، جس نے 14 ممالک میں ساحلی علاقوں کو تباہ کر دیا اور 2,30,000 سے زائد لوگوں کی جان لے لی، ہمیں نہ صرف ان جانوں کو یاد کرنا چاہیے جو اس المیے میں ضائع ہوئیں بلکہ ان سبقوں پر بھی تنقیدی نگاہ ڈالنی چاہیے جو ہم نے سیکھے ہیں اور ایسے سانحات کا سامنا کرنے کے لیے اپنی تیاری کا بھی جائزہ لینا چاہیے۔
سماٹرا کے ساحل کے قریب 9.1 شدت کے زلزلے کے باعث پیدا ہونے والی یہ سونامی جدید تاریخ کی سب سے مہلک قدرتی آفات میں سے ایک تھی۔ اور کسی کو یہ یاد دلانے کی ضرورت نہیں کہ اس نے فطرت کی طاقت کے سامنے انسانی نظام کی کمزوری کو بے نقاب کر دیا تھا۔
سال 2004 کی تباہی کے بعد، عالمی برادری نے غیر معمولی ہنگامی بنیادوں پر ایسے نظام قائم کرنے کے لیے کام کیا جو مستقبل میں ایسی ہی تباہیوں کو روک سکیں۔ 2005 میں شروع ہونے والا انڈین اوشین سونامی وارننگ اینڈ مٹگیشن سسٹم (IOTWMS) ایک تاریخی کامیابی تھی، جس نے زلزلوں کی نگرانی، سمندری سینسرز، اور تیز رفتار مواصلاتی پروٹوکولز متعارف کرائے۔
علاقائی تعاون میں بہتری آئی، اور ممالک نے حقیقی وقت میں ڈیٹا شیئر کرنے کا عزم کیا تاکہ بروقت وارننگز فراہم کی جا سکیں۔ عوامی آگاہی مہمات نے حساس علاقوں میں رہنے والی کمیونٹیز کو ابتدائی وارننگز پر مؤثر ردعمل کے لیے تیار کیا۔
تاہم، ان ترقیات کے باوجود، نمایاں خلا موجود ہیں۔ سونامی کی شناخت کی ٹیکنالوجی میں بلاشبہ ترقی ہوئی ہے، لیکن ابتدائی وارننگ سسٹمز کی مؤثریت ان آبادیوں کو تیزی سے معلومات فراہم کرنے پر منحصر ہے جو زیادہ خطرے میں ہیں۔ دیہی یا پسماندہ علاقوں میں، ناقص انفرااسٹرکچر اور محدود انٹرنیٹ رسائی ابھی بھی الرٹس کے بروقت پہنچنے میں رکاوٹ پیدا کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ، بہت سے خطرناک علاقوں میں انخلاء کے راستے ابھی تک مکمل طور پر تیار نہیں ہیں، جس کی وجہ سے ساحلی آبادی تیز رفتار بحران کے رحم و کرم پر ہے۔
ماحولیاتی تبدیلیاں ایک اور پیچیدگی کا اضافہ کرتی ہیں۔ سمندر کی بڑھتی ہوئی سطح اور شدید موسمی حالات کی بڑھتی ہوئے واقعات نے ساحلی آفات کے خطرات میں اضافہ کر دیا ہے، جس سے یہ ضرورت پیدا ہوتی ہے کہ خطرے کے انتظام کے ایسے جامع نظام وضع کیے جائیں جو ایک ہی وقت میں متعدد خطرات کو مدنظر رکھ سکیں۔ مزید برآں، ساحلی علاقوں میں شہری ترقی نے خطرات کو بڑھا دیا ہے، کیونکہ اب لاکھوں افراد ایسے علاقوں میں رہ رہے ہیں جو سونامی کے لیے حساس ہیں۔
اسٹیک ہولڈرز کو یہ سمجھنا ہوگا کہ تیاری صرف ٹیکنالوجی تک محدود نہیں بلکہ اس میں گورننس اور مساوات بھی شامل ہیں۔ حکومتوں کو خاص طور پر محروم طبقات کے لیے آفات کے خلاف مزاحمت کی فنڈنگ کو ترجیح دینی چاہیے۔ ابتدائی وارننگ سسٹمز صرف اس وقت مؤثر ہوتے ہیں جب ہر فرد ان پر عمل کر سکے، اور اس کے لیے تعلیم، حکام پر اعتماد، اور مضبوط انخلاء کی منصوبہ بندی ضروری ہے۔
سال 2004 کی سونامی کا ورثہ فطرت کی طاقت اور انسانیت کی مشترکہ کمزوری کی ایک گہری یاد دہانی ہے۔ جب ہم ان جانوں کو یاد کرتے ہیں جو کھو گئیں، تو ہمیں یہ بھی یقینی بنانا ہوگا کہ ان کی یاد ایک عالمی عزم کو جنم دے جو تیاری، مزاحمت، اور آنے والی نسلوں کے تحفظ کے لیے ہو۔
یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ قدرتی آفات کے متاثرین میں صرف مرنے والے، زخمی، اور بے گھر افراد شامل نہیں ہوتے۔ ایسے واقعات معیشتوں کو بھی تباہ کر دیتے ہیں، اور ان کے اثرات زندگیوں اور روزگار پر مستقبل میں بھی جاری رہتے ہیں۔
یہ سبق سیکھنا اور بھی اہم ہو جاتا ہے کہ صحیح قسم کے نتائج حاصل کیے جائیں۔ ابتدائی وارننگ سسٹمز صرف اسی وقت کامیاب ہو سکتے ہیں جب وہ صحیح جگہوں پر صحیح وقت پر کام کریں۔ اور، پچھلی سونامی کے بعد کیے گئے تمام کاموں کے باوجود، ایسا لگتا ہے کہ ابھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔
سال 2004 کی سونامی کا سب سے اہم سبق یہ تھا کہ اس نے کئی ممالک میں تباہی مچائی۔ یہ سب کے لیے کافی ہونا چاہیے کہ وہ یہ سمجھیں کہ مستقبل میں ایسے خطرات سے نمٹنے کے لیے آکراس دی بورڈ اور سرحدوں کے پار تعاون کی ضرورت ہوگی۔
کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر، 2025