پاکستان اسٹاک ایکسچینج (پی ایس ایکس) میں پیر کے روز زبردست خریداری دیکھنے میں آئی اور بینچ مارک کے ایس ای 100 انڈیکس میں 4 ہزار 400 سے زائد پوائنٹس کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا جو پوائنٹس کے لحاظ سے ایک دن میں دوسرا سب سے بڑا اضافہ ہے۔
کاروباری سیشن کے دوران مثبت رجحان برقرار رہا اور کے ایس ای 100 انڈیکس 114,189.71پوائنٹس کی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا۔
کاروبار کے اختتام پر بینچ مارک انڈیکس 4,411.27 پوائنٹس یا 4.03 فیصد کے اضافے سے 113,924.41پوائنٹس پر بند ہوا۔
آٹوموبائل اسمبلرز، سیمنٹ، کیمیکل، کمرشل بینکوں، فرٹیلائزر، تیل و گیس کی تلاش کرنے والی کمپنیوں، او ایم سیز اور بجلی کی پیداوار سمیت اہم انڈیکس شعبوں میں خریداری دیکھی گئی۔ حبکو، ایس ایس جی سی، ایس این جی پی، ایم اے آر آئی، او جی ڈی سی، پی پی ایل، ایچ بی ایل، ایم سی بی، ایم ای بی ایل اور یو بی ایل کے حصص کی لین دین مثبت زون میں ہوئی۔
بروکریج ہاؤس ٹاپ لائن سیکیورٹیز نے کہا کہ پوائنٹس کے لحاظ سے کے ایس ای 100 کے لئے یہ ایک دن میں دوسرا سب سے بڑا اضافہ ہے۔
خریداری کا رجحان متعدد اشاریوں کی وجہ سے تھا جن میں مرکزی بینک کی جانب سے توقعات کے مطابق پالیسی ریٹ میں 200 بی پی ایس کی کٹوتی کا فیصلہ بھی شامل تھا، جس سے شرح سود 13 فیصد تک کم ہو گئی، جو اپنی حالیہ بلند ترین سطح سے مجموعی طور پر 900 بی پی ایس کی کمی ہے۔
پاکستان میں رواں سال ایکوئٹیز نے اہم اثاثہ جات کو منافع میں پیچھے چھوڑ دیا کیونکہ بینچ مارک کے ایس ای 100 انڈیکس نے 75 فیصد (یکم جنوری 2024 سے 20 دسمبر 2024 تک) کا اضافہ ریکارڈ کیا۔
ٹاپ لائن سیکیورٹیز کی تحقیقی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ فائدہ اس مدت کے دوران حاصل ہونے والے منافع پر مشتمل ہے۔
گزشتہ ہفتے پی ایس ایکس بنیادی طور پر میوچل فنڈز کی بھاری فروخت اور اداروں کی جانب سے سال کے آخر میں منافع کمانے کی وجہ سے شدید دباؤ میں رہا۔ بینچ مارک کے ایس ای 100 انڈیکس ہفتہ وار 4 ہزار 788.65 پوائنٹس کی کمی سے 1 لاکھ 9 ہزار 513.15 پوائنٹس پر بند ہوا۔
پیر کو عالمی سطح پر ایشیائی حصص کی قیمتوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا جب امریکی افراط زر کے بارے میں اچھی ریڈنگ نے اگلے سال پالیسی میں مزید نرمی کی امید بحال کی، جبکہ اس بات سے بھی ریلیف ملا کہ واشنگٹن نے حکومتی شٹ ڈاؤن کو ٹال دیا ہے.
مرکزی بینک کے حالیہ فیصلوں کے ہنگامے کے بعد، یہ ہفتہ کافی پرسکون ہے، کیونکہ صرف چند اجلاسوں کے منٹس جاری ہونے ہیں۔ کوئی فیڈرل ریزرو تقاریر نہیں ہوئی ہیں اور امریکی ڈیٹا ثانوی اہمیت رکھتا ہے۔
باقی موضوعات زیادہ تر وہی رہے جہاں ڈالر ایک نسبتاً مضبوط معیشت اور زیادہ بانڈ ییلڈز کی بدولت سہارا پاتا رہا، جو کموڈٹیز اور سونے کے لیے ایک چیلنج ہے۔
یہ ابھرتی مارکیٹ کے ممالک کے لیے بھی ایک مشکل صورتحال ہے، جنہیں اپنی کرنسیوں کو زیادہ گرنے سے روکنے اور ملکی افراطِ زر کو بڑھنے سے بچانے کے لیے مداخلت کرنی پڑرہی ہے۔
فی الحال امریکی افراطِ زر کی رپورٹ کے اثرات کافی تھے کہ ایم ایس سی آئی کے ایشیا پیسفک کے سب سے وسیع انڈیکس (جاپان کے علاوہ) میں 0.3 فیصد کا اضافہ ہوا۔
دریں اثناء انٹر بینک مارکیٹ میں پیر کے روز امریکی ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی قدر میں 0.05 فیصد کی کمی ریکارڈ کی گئی۔ کاروبار کے اختتام پر ڈالر کے مقابلے میں روپیہ 15 پیسے کی کمی کے ساتھ 278 روپے 57 پیسے پر بند ہوا۔
آل شیئر انڈیکس پر حجم جمعہ کے روز 754.92 ملین سے بڑھ کر 857.83 ملین ہو گیا۔
حصص کی مالیت گزشتہ سیشن کے 39.42 ارب روپے سے بڑھ کر 50.55 ارب روپے ہوگئی۔
ورلڈ کال ٹیلی کام 71.05 ملین حصص کے ساتھ سب سے آگے رہی، اس کے بعد سنرجیکو پی کے 66.47 ملین حصص کے ساتھ دوسری اور پاک ایلیکٹرون 38.65 ملین حصص کے ساتھ تیسرے نمبر پر رہی۔
پیر کو 463 کمپنیوں کے حصص کا کاروبار ہوا جن میں سے 361 کمپنیوں کے حصص کی قیمتوں میں اضافہ، 62 میں کمی جبکہ 40 میں استحکام رہا۔