اسرائیل نے اتوار کے روز غزہ کی پٹی کے شمالی کنارے پر محصور علاقے میں جزوی طور پر کام کرنے والے آخری اسپتالوں میں سے ایک کو بند کرنے اور خالی کرنے کا حکم دیا ہے، جس کے بعد طبی عملے کو سیکڑوں مریضوں اور عملے کو محفوظ مقامات پر منتقلی کے لیے راستہ تلاش کرنے پر مجبور ہونا پڑا ہے۔
بیت لحیہ میں واقع کمال عدوان اسپتال کے سربراہ حسام ابو صفیہ نے ٹیکسٹ میسج کے ذریعے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ لاک ڈاؤن کے حکم کی تعمیل کرنا ’تقریبا ناممکن‘ ہے کیونکہ مریضوں کو اسپتال سے باہر منتقل کرنے کے لیے ایمبولینسیں ناکافی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اس وقت اسپتال کے اندر تقریبا 400 شہری موجود ہیں جن میں نوزائیدہ بچے بھی شامل ہیں جن کی زندگی آکسیجن اور انکیوبیٹرز پر منحصر ہے۔ ہم درکار مدد، سازوسامان اورمناسب وقت کے بغیر ان مریضوں کو بحفاظت کہیں اور منتقل نہیں کر سکتے۔
انہوں نے کہا کہ “ہم بھاری بمباری اورآگ برساتے ٹینکوں کے براہ راست اہداف کو نشانہ بنانے کے دوران یہ پیغام بھیج رہے ہیں، اگراس دوران اس اسپتال کو نشانہ بنایا گیا تو ایک بڑا دھماکہ ہوگا اور اندر موجود شہریوں کی بڑے پیمانے پر اموات ہوں گی۔
اسرائیلی فوج نے ابو صفیہ کے بیان پر تبصرہ کرنے کی درخواست کا جواب نہیں دیا۔ جمعے کے روز اس نے کہا تھا کہ اس نے اسپتال کو ایندھن اور خوراک کی فراہمی بھیجی ہے اور 100 سے زیادہ مریضوں اور دیکھ بھال کرنے والوں کو غزہ کے دیگر اسپتالوں میں منتقل کرنے میں مدد کی ہے، جن میں سے کچھ ریڈ کراس کے ساتھ اپنی حفاظت کے لیے تعاون کررہے ہیں۔
یہ اسپتال غزہ کے ان واحد اسپتالوں میں سے ایک ہے جو ابھی مصروف شمالی کنارے پر جزوی طور پر کام کر رہا ہے، یہ وہ علاقہ ہے جو تقریبا 3 ماہ سے شدید اسرائیلی فوجی آپریشنز کا شکار ہے۔
ابو صفیہ نے کہا کہ فوج نے مریضوں اور عملے کو دوسرے اسپتال منتقل کرنے کا حکم دیا ہے جہاں حالات اس سے بھی بدتر ہیں۔ اسپتال کے اندر سے لی گئی تصاویر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ بستروں پر مریضوں کو کھڑکیوں سے دور رکھنے کے لیے کوریڈور میں بند کر دیا گیا ہے۔ رائٹرز فوری طور پر ان تصاویر کی تصدیق نہیں کرسکا۔
اسرائیل کا کہنا ہے کہ غزہ کی پٹی کے شمالی کنارے پر3 آبادیوں بیت لحیہ، بیت حنون اور جبالیہ کے ارد گرد اس کے آپریشن میں حماس کے جنگجوؤں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ فلسطینی اسرائیل پر الزام عائد کرتے ہیں کہ وہ بفر زون بنانے کے لیے اس علاقے کو مستقل طور پر غیر آباد کرنا چاہتا ہے، جس سے اسرائیل انکار کرتا ہے۔
اسرائیلی فوج نے اتوار کے روز کہا ہے کہ بیت حنون میں سرگرم فورسز نے حماس کے جنگجوؤں اور انفرا اسٹرکچر کو نشانہ بنایا۔ حماس اور اس کے اتحادی اسلامی جہاد گروپ کے مسلح گروہوں نے کہا ہے کہ انہوں نے بہت سے اسرائیلی فوجیوں کو ہلاک کیا ہے۔
دوسری جانب غزہ کی پٹی میں اسرائیلی فوج کے حملوں میں کم از کم 24 فلسطینی شہید ہو گئے جن میں سے آٹھ بچے شامل ہیں ،اس حملے غزہ شہر میں بے گھر ہونے والے خاندانوں کو پناہ دینے والے ایک اسکول کو نشانہ بنایا گیا ہے۔
اسرائیلی فوج نے ایک بیان میں کہا ہے کہ حملے میں حماس کو نشانہ بنایا گیا جو اسکول کے اندر واقع کمانڈ سینٹر سے کام کر رہی تھی۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ جنگجوؤں نے اس جگہ کو اسرائیلی افواج کے خلاف حملوں کی منصوبہ بندی اور ان پر عمل درآمد کے لیے استعمال کیا۔ حماس اس بات سے انکار کرتی ہے کہ اس کے جنگجو عام شہریوں کے درمیان رہتے ہوئے کارروائیاں کررہے ہیں۔
طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ غزہ شہر میں ایک کار کو فضائی حملے میں نشانہ بناکر 4 فلسطینیوں کو شہید کردیا گیا۔ ایک اسرائیلی سکیورٹی اہلکار نے بتایا کہ فوجیوں نے حماس کے ایک دہشت گرد کو ایک گاڑی میں نشانہ بنایا ہے۔
طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ غزہ کے جنوب میں واقع رفح اور خان یونس اور وسطی غزہ کی پٹی میں نصیرات اور بریج میں فضائی حملوں میں کم از کم 12 فلسطینی شہید ہوئے۔
مذاکرات معطل ہونے کے کئی ماہ بعد حالیہ ہفتوں میں ثالثوں نے غزہ میں جنگ بندی کے لیے کوششیں تیز کر دی ہیں۔
مذاکرات کے قریبی ذرائع نے جمعرات کے روز رائٹرز کو بتایا کہ قطر اور مصر متحارب فریقوں کے درمیان کچھ اختلافات کو حل کرنے میں کامیاب رہے ہیں لیکن کچھ باقی رہ گئے ہیں۔
غزہ کے حکام کا کہنا ہے کہ اسرائیل کی اس فوجی جارحیت میں اب تک 45 ہزار 200 سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں۔ 23 لاکھ کی آبادی کا زیادہ تر حصہ بے گھر ہو چکا ہے اور ساحلی پٹی کا زیادہ تر حصہ کھنڈرات میں بدل چکا ہے۔