مانیٹری پالیسی کمیٹی (ایم پی سی) نے 16 دسمبر کو ہونے والے اجلاس میں پالیسی ریٹ کو 200 بیسس پوائنٹس کم کرکے 13 فیصد کردیا، جو نومبر کے کنزیومر پرائس انڈیکس (سی پی آئی) کے مقابلے میں 8.1 فیصد اور بنیادی افراط زر کے مقابلے میں 4.1 فیصد کا فرق ظاہر کرتا ہے۔
29 اپریل 2024 کو پالیسی ریٹ 22 فیصد مقرر ہونے کے بعد، تمام شیڈول شدہ ایم پی سی اجلاسوں میں مسلسل کمی دیکھی گئی: 10 جون کو یہ 20.5 فیصد، 29 جولائی کو 19.5 فیصد، 12 ستمبر کو 17.5 فیصد، اور 4 نومبر کو 15 فیصد تک کم کردیا گیا۔
حیران کن طور پر ڈسکاؤنٹ ریٹ اور کنزیومر پرائس انڈیکس (سی پی آئی) کے درمیان فرق میں بڑے پیمانے پر اتار چڑھاؤ آیا ہے جس کی وجہ سے ان دونوں کے درمیان کوئی واضح تعلق قائم کرنا مشکل ہے: اپریل 2024 میں سی پی آئی پالیسی ریٹ سے 4.7 فیصد کم یعنی 17.3 فیصد تھا، جون میں یہ شرح 7.9 فیصد کم یعنی 12.6 فیصد تھی۔ جولائی میں سی پی آئی 8.4 فیصد کم ہوکر 11.1 فیصد، ستمبر میں یہ انڈیکس 10.6 فیصد کم ہوکر 6.9 فیصد اور نومبر میں سی پی آئی 10.1 فیصد کم ہوکر 4.9 فیصد پر آگئی۔
سی پی آئی میں کمی کو عالمی اجناس کی قیمتوں میں کمی کے ساتھ منسلک کیا جا سکتا ہے جس کے بارے میں بیان میں کہا گیا ہے کہ یہ عمومی طور پر سازگار رہی ہیں جن کے مثبت اثرات مقامی افراط زر اور درآمدی بل پر پڑے ہیں۔
مانیٹری پالیسی بیان کے مطابق بنیادی افراط زر (غذائی اجناس اور توانائی کے علاوہ) 9.7 فیصد پر ”چپکاؤ“ کا شکار رہا، جبکہ صارفین اور کاروباری افراد کی افراط زر کی توقعات میں اتار چڑھاؤ برقرار رہا۔
اگر یہ مان لیا جائے کہ ایم پی سی کو تازہ ترین اعدادوشمار تک رسائی حاصل ہے تو یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ 9.7 فیصد تخمینے میں یکم دسمبر سے 16 دسمبر تک 0.8 فیصد اضافے کا تخمینہ لگایا گیا ہے، کیونکہ پاکستان ادارہ شماریات (پی بی ایس) کے اعدادوشمار کے مطابق نومبر کے لئے بنیادی افراط زر (شہری) 8.9 فیصد اور (دیہی) 10.9 فیصد سالانہ کے حساب سے تھا۔جیسا بھی ہو، پالیسی ریٹ اور بنیادی افراط زر کے درمیان فرق درج ذیل ہے۔اپریل میں 8.9 فیصد، جون میں 8.3 فیصد، جولائی میں 7.8 فیصد، ستمبر میں 8.2 فیصد، نومبر میں 6.1 فیصد تھا، اور پالیسی ریٹ 13 فیصد پر جب کہ ایم پی سی کے مطابق بنیادی افراط زر 9.7 فیصد تھا، تو یہ فرق صرف 3.3 فیصد رہ گیا ہے۔یہ بھی قابلِ ذکر ہے کہ مانیٹری پالیسی بیان میں یہ دعویٰ کیا گیا کہ نومبر میں بنیادی افراط زر میں معمولی کمی آئی ہے، جو کہ پاکستان بیورو آف اسٹٹسٹکس (پی بی ایس) کے مطابق درست نہیں ہے۔ پی بی ایس کے مطابق، دیہی علاقے میں اکتوبر سے نومبر تک ماہانہ بنیاد پر بنیادی افراط زر 0.6 فیصد سے بڑھ کر 1.2 فیصد ہوگیا، جبکہ شہری علاقوں میں ماہانہ بنیاد پر یہ 0.7 فیصد پر برقرار رہا۔
مذکورہ بالا سے یہ واضح طور پر ظاہر ہوتا ہے کہ پالیسی ریٹ کا کنزیومر پرائس انڈیکس یا بنیادی افراط زر سے کوئی قابلِ ذکر تعلق نہیں ہے اور یہ بلا شبہ ان عوامل کی بنیاد پر طے کیا جاتا ہے جو…(i) قرض کی ادائیگی کے اخراجات میں کمی، کیونکہ حکومت ملکی سطح پر واحد سب سے بڑی قرض دار ہے اور گورنر اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے ایک نجی چینل پر دعویٰ کیا ہے کہ بجٹ میں قرضوں کی ادائیگی کے اخراجات میں ایک کھرب روپے سے زیادہ کی کمی کی گئی ہے۔(ii) نجی شعبے کیلئے قرض کو پرکشش بنانے کی خواہش، تاکہ ترقی کو فروغ دیا جا سکے۔
فنانس ڈویژن کی جانب سے فراہم کردہ نومبر 2024 کی اپ ڈیٹ سے انکشاف ہوا ہے کہ یکم جولائی سے 25 اکتوبر تک نجی شعبے کو دیے جانے والے قرضوں میں 447.1 ارب روپے کا اضافہ ہوا حالانکہ بڑے پیمانے پر مینوفیکچرنگ کی نمو میں جولائی تا اکتوبر 2024 کے مقابلے میں منفی 0.64 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا، جس کے نتیجے میں یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ یہ رقم پیداوار بڑھانے کے بجائے ماضی کے قرضوں کی ادائیگی کے لیے لی گئی تھی۔اور (iii) ڈسکاؤنٹ ریٹ کے تعین میں ایک اہم عنصر بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی ٹیم کی قبولیت ہے، جو جاری پروگرام کے تحت ہے جس کا تسلسل بیرونی وسائل سے بڑے پیمانے پر مجموعی بہاؤ کو پورا کرنے کے لئے اہم ہے۔
اس سلسلے میں آئی ایم ایف کا فائدہ اس سال اکتوبر میں اپ لوڈ کیے گئے اسٹاف لیول ایگریمنٹ دستاویزات میں اس کے تبصرے سے واضح طور پر ظاہر ہوتا ہے: جی ڈی پی کے تقریبا ایک تہائی حصہ رکھنے والے شعبوں کیلئے دستیاب سورس ڈیٹا میں اہم خامیاں موجود ہیں جبکہ جی ایف ایس (حکومتی مالیاتی اعداد و شمار) کی تفصیل اور اعتبار سے متعلق مسائل ہیں۔“
انتظامیہ ان کمزوریوں کو دور کرنے کو ترجیح دے رہی ہے، جس کی حمایت آئی ایم ایف کی تکنیکی معاونت (ٹی اے) سے کی جارہی ہے، جو جی ایف ایس اور ایک نئے پی پی آئی انڈیکس پر مرکوز ہے، اور پاکستان بیورو آف اسٹیٹسٹکس جلد ہی آئندہ قومی حساب کتاب کی بنیاد کو مالی سال 26 کے لیے نئے سرے سے ترتیب دینے سے قبل چار بڑے سروز کے لیے فیلڈ ورک شروع کرے گا۔
ایم پی سی نے چار اہم پیش رفتوں کا ذکر کیا – جن میں سے دو مثبت تو تھیں مگر ان میں منفی پہلو بھی شامل تھا، اور ایک مکمل طور پر منفی عنصر تھا، جس کے نتیجے میں یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ ”4 نومبر کو پالیسی ریٹ میں کمی کا مجموعی اثر اب سامنے آنا شروع ہو رہا ہے۔“
سب سے پہلے گورنر اسٹیٹ بینک نے دعویٰ کیا کہ ذخائر قرضوں پر مبنی نہیں ہیں حالانکہ انہوں نے تسلیم کیا کہ ان میں دوست ممالک کی جانب سے ایک سال کے لیے 10 ارب ڈالر سے زائد کے ڈپازٹس شامل ہیں جن پر شرح سود حاصل ہوگی لیکن حیران کن طور پر اصرار کیا کہ چونکہ وہ فنڈ پروگرام کا حصہ ہیں اس لیے وہ قرض پر مبنی نہیں ہیں۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ غیر ملکی کرنسی کے آؤٹ فلو کے تمام جائز مطالبات پورے کیے جا رہے ہیں حالانکہ چینی آئی پی پیز نے ابھی تک اس بیان کی صداقت کو تسلیم نہیں کیا ، مزید برآں، فنڈ کے دستاویز میں حکومت نے کہا کہ ”اب بھی نازک بیرونی حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے برآمدی آمدنی کی واپسی کے لیے مدت کو مناسب انداز میں کم کرنے کا سلسلہ جاری رکھا جائے گا۔“
دوسری بات یہ ہے کہ بین الاقوامی اجناس کی قیمتوں میں کمی آئی تاہم اپ ڈیٹ کے مطابق درآمدات میں 13 فیصد اضافہ ہوا جبکہ برآمدات میں صرف 6.7 فیصد اضافہ ہوا جس کی وجہ سے اشیا کا خسارہ 8.3 ارب ڈالر رہا جو گزشتہ سال 7 ارب ڈالر تھا۔
تیسرا، نجی کریڈٹ میں اضافہ ہوا لیکن جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا ہے پیداوار میں اضافہ نہیں ہوا حالانکہ زیادہ فروخت سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اسٹاک میں کمی آئی۔ آخرکار، ٹیکس کی آمدنی میں ہدف سے کمی بڑھ گئی، جس کے باعث یہ امکان پیدا ہو گیا ہے کہ آئی ایم ایف کے ساتھ طے شدہ ہنگامی اقدامات (منی بجٹ) کو نافذ کیا جائے گا، جس میں زیادہ تر بالواسطہ ٹیکس شامل ہوں گے، جن کا بوجھ غریبوں پر امیروں کے مقابلے میں زیادہ ہوتا ہے۔
مزید برآں، ایم پی ایس نے نوٹ کیا کہ موجودہ سال میں اصل سی پی آئی 11.5 سے 13.5 فیصد کے تخمینے سے بہت کم ہے لیکن انہوں نے مزید یہ بھی کہا کہ افراط زر متعدد خطرات سے مشروط ہے، جس میں ریونیو شارٹ فال کو پورا کرنے کے لئے اضافی اقدامات اور بین الاقوامی اجناس کی قیمتوں میں اضافہ شامل ہے۔
اگلی ایم پی سی کی میٹنگ ابھی تک شیڈول نہیں کی گئی، حالانکہ گورنر نے کہا کہ یہ اگلے مہینے ہوگی، اور اس صورت میں صورتحال میں تبدیلی آ سکتی ہے کیونکہ فنڈ اہم ڈیٹا کی کمیوں کو درست کرنا شروع کرے گا۔
کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر، 2024