خیبرپختونخوا کے ضلع کرم کے شہر پارا چنار میں منگل کو امدادی پروازیں پہنچ گئی ہیں جہاں قبائلی جھڑپوں کی وجہ سے ہزاروں افراد پھنسے ہوئے ہیں جن میں جولائی سے اب تک 200 سے زائد افراد مارے جاچکے ہیں۔
افغانستان کی سرحد سے متصل ضلع کرم کے کچھ حصوں میں رہائشیوں نے خوراک اور ادویات کی قلت کی اطلاع دی ہے کیونکہ حکومت زمین کے تنازعات پر دو قبائل کے درمیان دہائیوں پرانے اختلافات کو ختم کرنے میں مشکلات کا شکار ہے۔
نجی فلاحی تنظیم ایدھی کے مقامی سربراہ شیر گل نے کہا کہ وہ موسم کے لحاظ سے ہفتے کے بقیہ دنوں میں پشاور شہر سے وادی کے لیے روزانہ کئی پروازیں چلوائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ ہمارا منصوبہ ہے کہ ہر پرواز میں تقریبا تین زخمیوں کو اسپتال منتقل کریں اور ان کیلئے ادویات لائیں۔
لڑائی کا تازہ ترین سلسلہ شروع ہونے کے بعد کئی بار جنگ بندیوں کا اعلان کیا گیا کیوں کہ متحارب فریقن کے عمائدین ایک دیرپا معاہدے پر بات چیت کر رہے ہیں۔
دریں اثنا حکومت نے تشدد پر قابو پانے کی کوشش میں ضلع کے اندر اور باہر اہم سڑکوں کو بند کر دیا ہے کیونکہ نومبر میں سیکورٹی اہلکاروں کی حفاظت میں ایک قافلے پر حملہ کیا گیا تھا جس میں 40 سے زیادہ افراد موت کے گھاٹ اتر گئے تھے۔
21 نومبر سے اب تک ہونے والی جھڑپوں میں کم از کم 133 افراد موت کی نیند سلائے جاچکے ہیں جبکہ 177 زخمی ہو چکے ہیں۔
ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کا کہنا ہے کہ جولائی اور اکتوبر کے درمیان علاقے میں 79 افراد جان سے گئے۔
پولیس کو کرم میں تشدد قابو کرنے میں باقاعدگی سے مشکلات پیش آتی رہی ہیں جو 2018 میں خیبر پختونخوا کے ساتھ ضم ہونے سے پہلے وفاقی طور پر زیر انتظام قبائلی علاقوں کا حصہ تھا۔
یہ جھڑپیں عموماً اس پہاڑی علاقے میں اراجی کے تنازعات کی وجہ سے دوبارہ شروع ہوئیں جن میں لڑنے والے قبائل کے درمیان موجود بنیادی کشیدگی کے سبب شدت آجاتی ہے۔