سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے فوجی عدالتوں کو 9 مئی کے واقعات میں ملوث 85 ملزمان کے فیصلے سنانے کی مشروط اجازت دے دی۔
جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس سید حسن اظہر رضوی، جسٹس نعیم اختر افغان، جسٹس مسرت ہلالی اور جسٹس شاہد بلال حسن پر مشتمل سپریم کورٹ کے 7 رکنی آئینی بینچ نے فوجی عدالتوں سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف انٹرا کورٹ اپیلوں کی سماعت کی۔
سماعت کے دوران آئینی بینچ نے حکم دیا کہ جن ملزمان کو سزاؤں میں رعایت مل سکتی ہے انہیں رہا کیا جائے۔
جسٹس امین الدین نے ریمارکس دیے کہ جن ملزمان کو رہا نہیں کیا جاسکتا انہیں سزا سنائے جانے کے بعد جیل منتقل کیا جائے۔
جمعرات کو جسٹس مندوخیل نے سوال اٹھایا تھا کہ ایک شہری جو فوج کا حصہ نہیں ہے، اس پر فوجی عدالتوں میں کس طرح مقدمہ چلایا جاسکتا ہے۔ انہوں نے آرمی ایکٹ کے تحت عام شہریوں پر مقدمہ چلانے کے جواز پر تشویش کا اظہار کیا۔
دوران سماعت جسٹس مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ فوجی عدالتوں سے متعلق پورا کیس آرٹیکل 8 کے گرد گھومتا ہے۔
انہوں نے سوال اٹھایا کہ مسلح افواج میں نہ ہونے والے شخص پر آرمی ایکٹ کے تحت مقدمہ کیسے چلایا جا سکتا ہے؟
یہ کیس سابق وزیراعظم عمران خان کی گرفتاری کے بعد 9 مئی کے واقعات میں ملوث ملزمان کے خلاف فوجی ٹرائل سے متعلق ہے جس میں مظاہرین نے لاہور میں کور کمانڈر کی رہائش گاہ (جناح ہاؤس) اور راولپنڈی میں فوج کے جنرل ہیڈ کوارٹرز (جی ایچ کیو) کے دروازوں سمیت متعدد فوجی اور ریاستی تنصیبات کو نقصان پہنچایا تھا۔
گزشتہ سال سپریم کورٹ نے گرفتار کیے گئے شہریوں کے فوجی مقدمات کو کالعدم قرار دیا تھا۔
تاہم گزشتہ سال 13 دسمبر کو سپریم کورٹ نے اپنے ہی فیصلے کو مشروط طور پر معطل کردیا تھا۔