رواں مالی سال کے پہلے پانچ ماہ (جولائی تا نومبر) کے دوران ترسیلات زر 34 فیصد اضافے سے 14.76 ارب ڈالر رہیں جو گزشتہ سال کے اسی عرصے میں 11 ارب ڈالر تھیں تاہم نومبر 2024ء کے دوران ترسیلات زر معمولی کمی کے ساتھ 2915.2 ملین ڈالر رہیں جو اکتوبر میں 3,054.6 ملین ڈالر تھیں۔
مجموعی ترسیلات زر میں سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور جی سی سی ممالک کا حصہ 55 فیصد رہا جب کہ امریکہ، برطانیہ اور یورپی یونین کے ممالک نے 5,446 ملین ڈالر کی ترسیلات بھیجیں، جو مجموعی ترسیلات زر کا قابلِ ذکر 37 فیصد ہے۔
دو مشاہدات اہم ہیں۔ سب سے پہلی اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ رواں سال تمام ممالک سے ترسیلات زر میں اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے ۔ رواں مالی سال جولائی تا نومبر سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے آنے والی ترسیلات زر میں گزشتہ مالی سال کے مقابلے میں ایک ایک ارب ڈالر کا اضافہ ہوا – گزشتہ مالی سال سعودی عرب سے ترسیلات 2,676.5 ملین ڈالر رہیں جو رواں مالی سال بڑھ کر3,653 ملین ڈالر ہوگئیں، اسی طرح گزشتہ مالی سال یواےای سے ترسیلات 1,909.3 ملین ڈالر موصول ہوئیں جو رواں سال بڑھ کر 2,952.6 ملین ڈالر ہوگئی ہیں جبکہ رواں سال کے پہلے پانچ ماہ کے دوران برطانیہ سے ترسیلات زر میں گزشتہ سال کے مقابلے میں 562.1 ملین ڈالر کا اضافہ ہوا (2024 میں 1,620.1 ملین ڈالر سے بڑھ کر اس سال 2,181.1 ملین ڈالر) اور یورپی یونین کے ممالک سے 364.2 ملین ڈالر کا اضافہ ہوا۔
اس اضافے کی وجہ جزوی طور پر اسٹیٹ بینک کی جانب سے ترسیلات زر کے لیے فراہم کردہ ترغیبات ہیں، نیز ایک ملک سے دوسرے ملک میں پیسہ منتقل کرنے کے لیے غیر قانونی ہنڈی/حوالی کے استعمال پر نہ صرف پاکستانی حکام بلکہ دنیا بھر کے حکام کی جانب سے کی جانے والی کارروائیاں بھی ہیں۔
تاہم، حالیہ اضافے کی ایک بڑی وجہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کا وہ فیصلہ ہے جس کے تحت اس نے 28 جون 2023 کو نو ماہ طویل اسٹینڈ بائی ارینجمنٹ (ایس بی اے) کے تحت بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ساتھ کیے گئے وعدے کی پاسداری کی کہ وہ غیر ملکی کرنسی کی مارکیٹ میں مداخلت نہیں کرے گا – یہ وعدہ 37 ماہ طویل جاری ایکسٹینڈڈ فنڈ فیسیلٹی پروگرام کے تحت بھی کیا گیا تھا۔
اعدادوشمار سے پتہ چلتا ہے کہ اسحاق ڈار کے دور حکومت میں ایس بی اے معاہدے تک ملک کو ترسیلات زر میں 4 ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔
دوسری بات، برآمدات، جو کہ زرِ مبادلہ کمانے کا ایک اور اہم ذریعہ ہیں،گزشتہ سال کے اسی عرصے کے مقابلے میں رواں سال کے پہلے پانچ ماہ کے دوران ترسیلات زر سے کم رہیں: جولائی تا نومبر 2024 میں ترسیلات زر 14.766 ارب ڈالر تک پہنچ گئیں، جب کہ برآمدات 13.691 ارب ڈالر رہیں۔ پچھلے سال (جولائی تا نومبر) برآمدات زیادہ تھیں، جو 12.162 ارب ڈالر تھیں، جبکہ ترسیلات زر 11.053 ارب ڈالر تھیں۔
اگرچہ گزشتہ سال اسحاق ڈار فیکٹر (زرمبادلہ مارکیٹ میں مداخلت) میں نرمی لائی جا رہی تھی اگرچہ ترسیلات زر پر اب بھی منفی اثرات مرتب ہو رہے تھے لیکن رواں سال کا توازن برآمدات کے مقابلے میں ترسیلات زر کے بہاؤ کے حق میں جھکنے سے حکام میں دو پہلوؤں پر شدید تشویش پیدا ہونی چاہیے تھی:(i) کیا برآمدات میں کمی کی ایک وجہ آئی ایم ایف کی شرط ہے جس میں تمام فسکل استثنیات اور برآمدات و پیداوار کے شعبوں کے لیے کریڈٹ ترغیبات (جن میں بجلی کی سبسڈی شامل ہے) ختم کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا؟اور(ii) زرمبادلہ ذخائر کی کمی، اس وقت صورتحال میں بہتری آئی ہے لیکن ذخائر زیادہ تر قرضوں پر مبنی ہیں، حکومت کو خام مال کی درآمدات کے لئے بھی لیٹر آف کریڈٹ کھولنے میں تاخیر کرنے پر مجبور کر رہی ہے ہیں اور اس کے ساتھ آزاد پاور پروڈیوسرز اور دیگر غیر ملکی کمپنیوں کے منافع کی واپسی کو سست کر رہی ہے۔
مزید برآں، آئی ایم ایف کے ساتھ طے پائے گئے اسٹاف لیول معاہدے کے تفصیلی دستاویزات میں کہا گیا ہے کہ ”حکام نے برآمدات کی آمدنی کی واپسی کے لیے مدت کو کم کرنے کو مناسب سمجھا کیونکہ بیرونی حالات ابھی بھی نازک ہیں۔“
لہٰذا آئی ایم ایف کی شرائط کے پیداواری شعبوں پر حقیقی اثرات کا تعین کرنے کے لیے مناسب مطالعہ کرنے کی اشد ضرورت ہے جو اشیاء اور خدمات کے ساتھ ساتھ روزگار کے مواقع بھی فراہم کرتے ہیں اور ماضی میں ٹیکس دہندگان کی قیمت پر دی جانے والی مالیاتی مراعات کی لاگت اور اس کے نتیجے میں معیشت اور عوام کو ہونے والے فوائد کا تعین کرتے ہیں۔
اس طرح کے تجرباتی مطالعے کے بغیر آئی ایم ایف پروگرام کا ڈیزائن پاکستان کی شرائط کے بجائے عمومی نقطہ نظر پر منحصر رہے گا جس کے نتیجے میں ملک کو کثیر الجہتی اور دوطرفہ حمایت پر مستقل انحصار سے نکالنے کی صلاحیت حاصل ہوگی۔
کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر، 2024