پاکستان کا سب سے بڑا کاروباری گروپ، اینگرو کارپوریشن، اپنے اسٹریٹجک شراکت دار ویون کے ساتھ، پاکستان میں ٹیلی کام ٹاور شیئرنگ کی کوریج کو وسعت دینے اور ٹیلی کام انفراسٹرکچر میں مختلف استعمال کے امکانات کو دریافت کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔
اینگرو کارپوریشن کے 40 فیصد حصص کے مالک داؤد ہرکولیس کارپوریشن کے وائس چیئرمین صمد داؤد نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ “پاکستان ٹیلی کام کے لحاظ سے ایک بہت بڑی مارکیٹ ہے، جو بڑھتی جا رہی ہے۔
صمد داؤد نے ”مراکش کے بحر اوقیانوس کے ساحل سے لے کر وسطی ایشیائی ریاستوں تک“ کے ممالک کو ممکنہ منڈیوں کے طور پر شناخت کرتے ہوئے کہا، “بنیادی ڈھانچے کا یہ کاروبار، بڑے پیمانے پر، ہمیں پاکستان میں ٹیلی کام کے بنیادی ڈھانچے کو بہتر طریقے سے استعمال کرنے اور بالآخر بین الاقوامی مارکیٹوں میں بھی خدمات فراہم کرنے کی اجازت دیتا ہے۔
اینگرو اور ڈچ ٹیلی کمیونیکیشن اور ڈیجیٹل سروسز کمپنی ویون نے گزشتہ ہفتے پاکستان میں اپنے انفراسٹرکچر اثاثوں کو جمع کرنے اور ان کا انتظام کرنے کے منصوبوں کا اعلان کیا تھا۔
کمپنیاں ٹاور شیئرنگ کوریج کو دوسرے آپریٹرز تک وسعت دینے اور دیگر استعمال کے معاملات کو دیکھنے کا ارادہ رکھتی ہیں ، جس میں الیکٹرانک گاڑیوں کی چارجنگ اور ڈرون لینڈنگ شامل ہوسکتی ہے۔
اس شراکت داری کے تحت اینگرو پاکستان میں ویون کے ڈیجیٹل آپریٹر جاز کو 188 ملین ڈالر ادا کرے گا اور دیودار کے 375 ملین ڈالر کے انٹرکمپنی قرض کی ادائیگی کی ضمانت دے گا۔
یہ کارپوریٹ اور ریگولیٹری منظوریوں سے مشروط ہے۔ ٹاپ لائن سیکیورٹیز کے مطابق ویون کے تحت دیودار کے پاکستان میں مجموعی طور پر 10,500 ٹاورز ہیں جبکہ اینگرو انفراشیئر کے تحت موجودہ ٹاورز کی تعداد 4،063 ہے۔
اس سال کے اوائل میں اینگرو کے صمد داؤد نے کہا تھا کہ تنظیم نو سے فرم کو وسیع تر معاشی مواقع سے فائدہ اٹھانے کا موقع ملے گا، انہوں نے کمپنی کی تنظیم نو کی وجہ ایک چیلنجنگ میکرو اکنامک ماحول کا حوالہ دیا۔
اپریل میں آئی ایم ایف کا 3 ارب ڈالر کا بیل آؤٹ پیکج مکمل کرنے کے بعد پاکستان معاشی بحالی کی راہ پر گامزن ہے اور اب میکرو اکنامک استحکام کو یقینی بنانے کے لیے ستمبر میں منظور کردہ 7 ارب ڈالر 37 ماہ کا بیل آؤٹ پیکج لے رہا ہے۔
تاہم صمد داؤد اب کہتے ہیں کہ حالات بدل چکے ہیں جس کی وجہ سے اینگرو کی پاکستانی روپے میں سب سے بڑی ٹرانزیکشن ہوئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ گزشتہ چند سہ ماہیوں کے دوران پاکستان میں کیے گئے اقدامات اور میکرو اکنامک استحکام کے لیے سخت فیصلے اس معاہدے کا باعث بنے ہیں، انہوں نے مزید کہا کہ شرح سود اور افراط زر میں کمی کے ساتھ ساتھ پاکستان کے جاری آئی ایم ایف پروگرام سے بھی مدد ملی ہے۔
پاکستان نے نومبر میں شرح سود کو 22 فیصد کی بلند ترین سطح سے کم کر کے 15 فیصد کر دیا تھا۔
نومبر میں افراط زر کی شرح کم ہو کر 4.9 فیصد رہ گئی ہے جو 2023 میں کئی دہائیوں کی بلند ترین سطح 40 فیصد تھی۔
صمد داؤد نے کہا، “آنے والے میکرو استحکام اور آئی ایم ایف کی منظوری کا غیر ملکی فنانسرز پر بہت بڑا اثر پڑے گا کہ وہ پاکستان کو سرمایہ کاری کے قابل مارکیٹ کے طور پر دیکھیں۔