جنوبی کوریا: ناکام مارشل لا کے بعد صدر یون سوک یول سے استعفے کا مطالبہ، مواخذے کی بھی دھمکی

04 دسمبر 2024

جنوبی کوریا میں مارشل کی ناکامی کے بعد حزبِ اختلاف کی جماعتیں صدر یون سک یول سے استعفے کا مطالبہ کررہی ہیں۔ پارلیمان کے بعض ارکان نے استعفٰی نہ دینے کی صورت میں صدر کے مواخذے کا بھی مطالبہ کیا ہے۔واضح رہے کہ جنوبی کوریا کے صدر نے ملک میں مارشل لا نافذ کردیا تھا،تاہم شدید عوامی مزاحمت کے باعث چند گھنٹوں بعد ہی صدر مارشل لا اُٹھانے پر مجبور ہوگئے تھے۔ اس اقدام سے ملک کی چوتھی سب سے بڑی معیشت میں سیاسی بحران پیدا ہوگیا ہے۔

منگل کی رات کا غیر متوقع اعلان پارلیمنٹ کے ساتھ تصادم کا باعث بنا، جس نے سیاسی سرگرمیوں پر پابندی لگانے اور میڈیا پر سنسرشپ کی کوشش کو مسترد کر دیا۔ اس دوران مسلح فوجیوں نے سیول میں نیشنل اسمبلی کی عمارت میں داخل ہونے کی کوشش کی۔

حزب اختلاف کی سب سے بڑی ڈیموکریٹک پارٹی نے 2022 سے اس عہدے پر فائز یون سے استعفیٰ دینے یا مواخذے کا سامنا کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پوری قوم پر واضح طور پر یہ بات سامنے آ چکی ہے کہ صدر یون اب ملک کو معمول کے مطابق نہیں چلا سکتے۔ ڈی پی کے سینئر رکن پارلیمنٹ پارک چن ڈی نے ایک بیان میں کہا کہ انہیں استعفیٰ دے دینا چاہیے۔

ڈیموکریٹک پارٹی نے صحافیوں کو ایک پیغام میں کہا کہ جنوبی کوریا کی چھ اپوزیشن جماعتوں نے کہا ہے کہ وہ بدھ کو یون کے مواخذے کا بل پیش کریں گی۔

یون کی حکمراں پیپلز پاور پارٹی کے رہنما نے وزیر دفاع کم یونگ ہیون کو برطرف کرنے اور پوری کابینہ سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا۔

یون نے منگل کی رات دیر گئے ایک ٹی وی خطاب میں قوم کو بتایا کہ ملک کو جوہری ہتھیاروں سے لیس شمالی کوریا اور شمالی مخالف ریاست مخالف قوتوں سے بچانے اور اس کے آزاد آئینی نظام کے تحفظ کیلئے مارشل لاء کی ضرورت ہے۔

جیسے ہی فوجیوں نے پارلیمنٹ کی عمارت پر قابو پانے کی کوشش کی، تو افراتفری پھیل گئی۔ پارلیمنٹ کے معاونین نے انہیں پیچھے دھکیلنے کے لیے آگ بجھانے والے آلات کا استعمال کیا، اور مظاہرین نے باہر پولیس کے ساتھ جھگڑا کیا۔

فوج کا کہنا ہے کہ پارلیمنٹ اور سیاسی جماعتوں کی سرگرمیوں پر پابندی ہوگی اور میڈیا اور پبلشرز مارشل لا کمانڈ کے کنٹرول میں ہوں گے۔

لیکن اراکین نے سکیورٹی حصار کی خلاف ورزی کی اور اعلان کے چند گھنٹوں کے اندر ہی جنوبی کوریا کی پارلیمنٹ نے، جس میں اس کے 300 میں سے 190 ارکان موجود تھے، متفقہ طور پر ایک تحریک منظور کی جس میں مارشل لاء ہٹانے کا مطالبہ کیا گیا، جس میں یون کی پارٹی سے تعلق رکھنے والے تمام 18 ارکان بھی شامل تھے۔

بعدازاں صدر نے اس اعلامیے کو منسوخ کردیا۔ قومی اسمبلی کے باہر مظاہرین نے نعرے بازی کی اور تالیاں بجائیں۔

مظاہرین نے ہم جیت گئے کے نعرے لگائے اور ڈھول بجائے ۔ایک جنوبی کوریائی حکومتی اہلکار نے رائٹرز کو فون پر بتایا کہ ایمرجنسی مارشل لاء لگانے کے بارے میں یہ رائے تھی کہ یہ زیادہ تھا، اور ہم نے ایمرجنسی مارشل لاء کے طریقہ کار پر عمل نہیں کیا، لیکن یہ سب آئینی حدود کے اندر کیا گیا۔“

بدھ کو مزید مظاہروں کی توقع ہے کیونکہ جنوبی کوریا کی سب سے بڑی یونین اتحاد، کوریائی کنفیڈریشن آف ٹریڈ یونینز، سیول میں ایک ریلی کا انعقاد کرنے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے اور یوون کے استعفیٰ تک ہڑتال کرنے کا عزم ظاہر کر رہی ہے۔

امریکی سفارتخانے نے جنوبی کوریا میں مقیم امریکی شہریوں کو مظاہروں کے علاقوں سے دور رہنے کی ہدایت کی ہے۔ اہم کمپنیاں جیسے نیور کارپوریشن اور ایل جی الیکٹرانکس نے اپنے ملازمین کو گھر سے کام کرنے کا مشورہ دیا ہے۔ مالی منڈیاں غیر مستحکم رہیں، جنوبی کوریا کے اسٹاک میں تقریباً 2 فیصد کی کمی آئی اور وون دو سال کی کم ترین سطح سے مستحکم ہوا۔

ڈیلرز نے جنوبی کوریا کے حکام کی جانب سے وون کی سلائیڈنگ کو روکنے کے لیے مشتبہ مداخلت کی اطلاع دی۔

وزیر خزانہ چوئی سانگ موک اور بینک آف کوریا کے گورنر ری چانگ یونگ نے رات گئے ہنگامی ملاقاتیں کیں اور وزارت خزانہ نے ضرورت پڑنے پر مارکیٹوں کو سہارا دینے کا وعدہ کیا۔

حکومت نے ایک بیان میں کہا کہ ہم اسٹاک، بانڈز، قلیل مدتی منی مارکیٹ کے ساتھ ساتھ فاریکس مارکیٹ میں اس وقت تک لامحدود لیکویڈیٹی داخل کریں گے جب تک کہ وہ مکمل طور پر معمول پر نہیں آ جاتے۔

ایک جنوبی کوریا کی بڑی کنویننس اسٹور چین نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ کینڈ سامان، انسٹنٹ نوڈلز اور بوتل بند پانی کی فروخت راتوں رات بڑھ گئی ہے۔

سیول کے رہائشی کم بیونگ ان نے رائٹرز سے بات کرتے ہوئے کہا، ”مجھے اس قسم کی صورتحال پر گہری تشویش ہے، اور میں ملک کے مستقبل کے بارے میں بہت پریشان ہوں۔“

اگر دو تہائی سے زیادہ اراکین اس کے حق میں ووٹ دیتے ہیں تو قومی اسمبلی صدر کا مواخذہ کر سکتی ہے۔ اس کے بعد آئینی عدالت کے ذریعے مقدمے کی سماعت ہوتی ہے، جو نو میں سے چھ ججوں کے ووٹ سے اس کی تصدیق کر سکتی ہے۔

یون کی پارٹی کے پاس 300 رکنی اسمبلی میں 108 نشستیں ہیں۔ اگر یون استعفیٰ دیتے ہیں یا انہیں عہدے سے ہٹایا جاتا ہے تو وزیرِاعظم ہن ڈک سو کو قائد کی حیثیت سے عارضی طور پر کام کرنا ہوگا جب تک کہ 60 دن کے اندر نیا انتخاب نہ ہو جائے۔

امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے کہا کہ وہ یون کے مارشل لاء کے اعلان کو منسوخ کرنے کے فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہیں۔

بلنکن نے ایک بیان میں کہا کہ ہم سیاسی اختلافات کو پرامن اور قانون کی حکمرانی کے مطابق حل کرنے کی توقع رکھتے ہیں۔

Read Comments