صبح کا وقت تھا، پرندوں کی چہچہاہٹ اور تازہ ہوا کے ساتھ نہانے کے بعد میں نے لاؤنج کے سامنے والا درواز کھولا کھولا اور اپنی گریفائٹ گرے 2023 ہائبرڈ کیا نیرو کی ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ گیا۔
دفتر جاتے ہوئے میں نے بہت سے طلبہ کو چمکدار یونیفارم اور ہیلمٹ پہنے الیکٹرک بائیکس چلاتے ہوئے دیکھا۔
پشاور روڈ پر الیکٹرک گاڑیوں اور ہائبرڈ ایس یو ویز کی بھرمار تھی۔ کئی مقامات پر میں نے دلچسپ رنگوں اور ڈیزائن والی سہ پہیہ گاڑیاں بھی دیکھیں۔
سڑک پر شور بالکل نہیں تھا اور فضا پرسکون تھی جبکہ ہوا کا معیار بھی صاف محسوس ہورہا تھا۔ شہر ایک زیادہ پائیدار اور ماحول دوست ٹرانسپورٹیشن کے طریقہ کو اپناتا نظر آ رہا تھا۔ نوجوان پیشہ ور افراد مرکزی سڑک کے انتہائی بائیں لین میں الیکٹرک بائیکس پر سوار تھے۔
میں نے شاپنگ مال کی پارکنگ میں بجلی سے الیکٹرک گاڑیوں کے لیے سولر انرجی سے چلنے والا چارجنگ اسٹیشن دیکھا جبکہ ایک اور اسٹیشن سڑک کنارے بھی دیکھا جس میں ایک بڑا الیکٹرانک ڈسپلے تھا جس میں تین پوائنٹ خالی اور ایک بھرا ہوا تھا۔ سڑک پر فوسل فیول سے چلنے والی گاڑیاں بہت کم تھیں، میں نے صرف چند سوزوکی، ٹویوٹا اور ہونڈا کاریں دیکھی تھیں۔ ان میں بیشتر چینی یا پاکستانی تھیں۔
ایک الیکٹرانک ڈسپلے نے موجودہ ایئر کوالٹی انڈیکس دکھایا اور تمام اشارے گرین زون میں تھے۔ میرے موبائل فون پر میری بیوی کی کال آئی جس میں مجھے بتایا گیا کہ وہ اپنی نئی خریدی گئی ایم جی 4 ای وی میں بچوں کو اسکول سے لینے جائے گی کیونکہ وہ اس وقت تک ضروری خریداری مکمل کرلے گی۔ یہ ایک اطمینان بخش بات تھی کیوں کہ کام کے فورا بعد میری ایک میٹنگ طے تھی اور میں بچوں کو لانے سے قاصر تھا۔ میں نے چھ افراد پر مشتمل ایک فیملی کو بس اسٹاپ پر یوٹانگ الیکٹرک بس سے اترتے ہوئے دیکھا۔
بس کا ڈیزائن خوبصورت تھا اور اندر سے بہت کشادہ لگ رہا تھا۔ اچانک میں نے ہارن کی آواز سنی جو مسلسل بجایا جارہا تھا، مجھے یقین نہیں تھا کہ یہ کون بجارہا ہے اس کے بعد مکمل سکوت طاری تھا اور گرمی بھی ہورہی تھی۔ مجھے اپنے بستر پر پسینہ آ رہا تھا۔ یو پی ایس شٹ بند ہونے سے پنکھا رک گیا تھا۔ میں ایک خواب سے لطف اندوز ہو رہا تھا جو بہت حقیقی لگ رہا تھا لیکن اب میں اپنے تاریک کمرے میں جاگ رہا تھا۔
خواب خواب ہوتے ہیں لیکن کیا یہ خواب سچ ہو سکتا ہے؟ میں نے بوکھلاہٹ کا اظہار کرتے ہوئے نیند کے غلبے کو ختم کرنے کی کوشش کی۔ میری خواہش تھی کہ میرا خواب پورا ہو سکے لیکن میں جانتا تھا کہ یہ صرف میرا تصور تھا۔
پاکستان دنیا کا پانچواں سب سے زیادہ آبادی والا ملک ہے جہاں نوجوانوں کی بڑی تعداد موجود ہے اور آٹوموٹو سیکٹر تباہی کے دہانے پر ہے۔ بے پناہ صلاحیتوں اور قابلیت کے باوجود معاشی عدم استحکام اور سیاسی خلفشار نے ملک کو پیچھے دھکیل دیا ہے۔ پیٹر ڈرکر نے آٹوموٹو انڈسٹری کو ”تمام صنعتوں کی ماں“ قرار دیا لیکن پاکستان میں اس کا احترام نہیں کیا جاتا جس کی وجہ سے بڑے پیمانے پر خلل پڑتا ہے۔
آٹوموٹو انڈسٹری ڈویلپمنٹ پروگرامز (اے آئی ڈی پیز) کے ذریعے صنعت کو بحال کرنے کی متعدد کوششیں طویل مدتی ترقی اور استحکام حاصل کرنے میں ناکام رہی ہیں۔ پاکستانی ماہرین نے صنعت کی خراب کارکردگی کی وجوہات پر وسیع پیمانے پر تحقیق کی ہے لیکن صرف مسائل کی فہرست دینے سے بنیادی مسائل حل نہیں ہوئے ہیں۔
حکومت ترقی اور استحکام کو فروغ دینے کے لئے نجی سرمایہ کاروں اور غیر ملکی کمپنیوں کی تلاش میں ہے جبکہ سرمایہ کار مستحکم معاشی پالیسیوں اور ہنرمند افرادی قوت کی تلاش میں ہیں۔
بدنیتی اور بدعنوانی کا ایک مکروہ چکر ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے، حکومت پر اعتماد کو ختم کرتا ہے اور انٹرنیشنل اوریجنل ایکوئپمنٹ مینوفیکچررز (او ای ایمز) سے سرمایہ کاری کی صورتحال کو مزید خراب کررہا ہے۔ اس کے نتیجے میں ملک کی معیشت متاثر ہوتی ہے اور لوگ اپنے پیاروں کیلئے سستی اور معیاری گاڑیوں کی امید چھوڑ دیتے ہیں۔
بڑے پیمانے پر طلب کے امکانات کے باوجود مقامی آٹوموٹو صنعت بے بس دکھائی دیتی ہے۔ آٹوموٹو انڈسٹری ڈویلپمنٹ اینڈ ایکسپورٹ پالیسی (اے آئی ڈی ای پی) 2021-2026 سرمایہ کاروں کو راغب کرنے اور اس شعبے کو فروغ دینے کے لئے شروع کی گئی تھی۔ ترقی کی حوصلہ افزائی اور روزگار کے مواقع پیدا کرنے کے لئے پرعزم پیداواری اہداف مقرر کیے گئے تھے لیکن نتائج ابھی تک توقعات کے مطابق نہیں۔
یہاں تک کہ تھائی لینڈ، ملائیشیا اور انڈونیشیا ہائبرڈ اور الیکٹرک گاڑیوں (ای وی) کے لیے بیٹریاں اور دیگر بنیادی سامان تیار کر رہے ہیں اور جاپانی اور جرمن او ای ایمز کے تعاون سے ان کاروں کی اسمبلنگ کر رہے ہیں۔
تاہم پاکستان میں حکام تبدیلیوں پر عملدرآمد کرنے کے لئے ٹھوس اقدامات کرنے کے بجائے ان کی منصوبہ بندی کرنے میں بہت زیادہ وقت لگادیتے ہیں۔ آٹوموٹو انڈسٹری کئی دیگر صنعتوں کے ساتھ مکمل طور پر منسلک ہے، لہذا اسے مضبوط بنانے سے ملک میں مجموعی صنعتی ماحولیاتی نظام کو مدد ملے گی۔ یہ نقطہ نظر بلآخر معاشی ترقی اور روزگار کے مواقع پیدا کرنے کا باعث بنے گا۔
فی الحال ٹویوٹا نے ہائبرڈ کیٹیگری میں کرولا کراس کے لیے محدود اسمبلنگ آپریشنز کا آغاز کیا ہے جس کی قیمت تقریبا ایک کروڑ روپے ہے۔ سازگار انجینئرنگ ورکس لمیٹڈ (ایس ای ڈبلیو ایل) نے گریٹ وال موٹرز (جی ڈبلیو ایم) کے تعاون سے مقامی طور پر اسمبل ہونے والی دو ہائبرڈ گاڑیاں، ہیول اور جولیون بھی پیش کی ہیں، جن میں سے ہر ایک کی قیمت تقریبا ایک کروڑ روپے ہے۔
سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی جانب سے غریب ترین ممالک میں 52 ویں نمبر پر موجود ملک میں کتنے صارفین اتنی مہنگی گاڑیاں خرید سکیں گے؟ اگرچہ پاکستانی حکومت نے الیکٹرک گاڑیوں کی پیداوار کی حوصلہ افزائی کے لیے اسمبلرز کو ٹیکس مراعات دی ہیں لیکن ایک اور سوال کم سے درمیانی آمدنی والے عام لوگوں کے لیے ان گاڑیوں کی کفایت شعاری کے حوالے سے پیدا ہوتا ہے۔
کیا یہ ٹیکس مراعات پاکستان میں بجلی سے چلنے والی اور ہائبرڈ گاڑیوں کو آمدنی کی تمام سطحوں تک رسائی فراہم کرنے کے لیے کافی ہیں؟
بجائے اس کے کہ عوام اور بالخصوص کم متوسط آمدنی والے افراد کیلئے کے لیے ان گاڑیوں کی قیمتوں کو سستا بنانے پر توجہ دی جائے اے آئی ڈی پی (2021-26) اور نیشنل الیکٹرک وہیکل پالیسی (این ای وی پی) مینوفیکچرز اور امپورٹرز کو ٹیکس مراعات دینے پر مرکوز ہے۔
یہ نقطہ نظر پاکستان میں تمام آمدنی کی سطحوں تک الیکٹر گاڑیوں کو قابل رسائی بنانے پر ان پالیسیوں کے ممکنہ اثرات کو محدود کرسکتا ہے۔ آج تک کسی بھی کمپنی نے پاکستان میں بسوں یا ٹرکوں کی اسمبلنگ میں کوئی دلچسپی ظاہر نہیں کی ہے اور امکان ہے کہ یہ مستقبل قریب میں بھی جاری رہے گا۔
الیکٹرک موبیلیٹی میں تحقیق اور ترقی کے اقدامات مختلف اداروں کے تحت علیحدہ علیحدہ کیے جا رہے ہیں، جن کے لیے عوامی اور نجی تعلیمی و غیر تعلیمی اداروں میں مراکز قائم کیے گئے ہیں۔
تاہم الیکٹرک گاڑیوں کو وسیع پیمانے پر اپنانے اور پالیسی کے نفاذ کیلئے طویل راستہ طے کرنا باقی ہے۔ الیکٹرک گاڑیوں کے لیے انفراسٹرکچر کو بڑے پیمانے پر اپنانے کے لیے اہم بہتری کی ضرورت ہے۔ الیکٹرک گاڑیوں کے لیے انفراسٹرکچر کو بڑے پیمانے پر اپنانے کے لیے اہم بہتری کی ضرورت ہے۔ ان اہم اور آسانی سے رسائی والے مقامات پر الیکٹرک چارجنگ اسٹیشنز قائم کرنے کے منصوبے واضح اور مؤثر طریقے سے عمل میں لائے جانے کی ضرورت ہے۔
یہاں تک کہ دو اور تین پہیوں والی گاڑیوں سے متعلق بھی الیکٹرکائزیشن کو فروغ دینے کے لیے کوئی جامع میکانزم نہیں بنایا گیا۔ چین، جو اس وقت الیکٹرک موبیلیٹی میں سب سے آگے ہے، نے دو پہیوں والی گاڑیوں اور ہلکی گاڑیوں کے لیے بیٹری سوئپنگ آپشن پر کامیابی سے عملدرآمد کیا ہے۔
موجودہ سیاسی و اقتصادی صورتحال نے پورے آٹوموٹو صنعتی شعبے کو جمود کا شکار کر دیا ہے۔ تمام بڑی اور چھوٹی صنعتوں تک مالکان توانائی کی حفاظت سے لے کر آٹوموٹو پالیسیوں تک متعدد مسائل کی وجہ سے اپنے کاروبار کے مستقبل کے بارے میں فکرمند ہیں۔ اس غیر یقینی صورتحال کی وجہ سے پوری صنعت میں سرمایہ کاری اور پیداوار کی سطح میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے۔
ان مشکلات نے خاص طور پر لاہور کو متاثر کیا ہے جو ملک میں آٹوموٹو کا ایک اہم مرکز ہے۔ ایک اور بڑے صنعتی شہر گوجرانوالہ میں بھی اس کے اثرات محسوس کیے گئے ہیں کیونکہ شہر میں لائٹ انجینئرنگ کلسٹر کو آرڈرز اور آمدنی میں کمی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
جیسے جیسے آبادی تیزی سے بڑھتی ہے، مانگ میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے، یہ مسئلہ اور بھی سنگین ہوجاتا ہے۔
صنعت کار حکومت کی طرف دیکھ رہے ہیں، حکومت سرمایہ کاروں کی طرف دیکھتی ہے، سرمایہ کار مواقع تلاش کرتے ہیں اور یہ سلسلہ جاری رہتا ہے جس کا کوئی واضح حل نظر نہیں آتا۔ نتیجتا مقامی صنعت جمود کا شکار ہے اور موجودہ معاشی ماحول میں ترقی کرنے سے قاصر ہے۔
میرا خواب مجھے ہر رات پریشان کرتا ہے، مجھے اس صلاحیت کی یاد دلاتا ہے جو ضائع ہو رہی ہے۔ حالات اس وقت تک تبدیل نہیں ہوں گے جب تک انہیں بہتر بنانے کی کوشش نہیں کی جاتی۔ جیسا کہ آئن سٹائن نے ایک بار کہا تھا کہ آپ کسی مسئلے کو اس سوچ سے حل نہیں کر سکتے جس سے وہ مسئلہ پیدا ہوتا ہے۔ آپ کو دنیا کو نئے سرے سے دیکھنا سیکھنا چاہئے۔ پاکستان کی آٹوموٹو انڈسٹری کے مسائل کو ایک نئے نقطہ نظر اور جدید حل کے ساتھ حل کیا جانا چاہئے۔ یہ تشویش کی بات ہے کہ ماضی کی کوششوں سے مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہوئے ہیں اور اب کچھ مختلف کرنے کا وقت آگیا ہے۔
پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈیولپمنٹ اکنامکس (پائیڈ)، انجینئرنگ ڈیولپمنٹ بورڈ (ای ڈی بی) اور پاکستان ایسوسی ایشن آف آٹوموٹو پارٹس اینڈ ایکسیسریز مینوفیکچررز (پی اے اے پی اے ایم) جیسے ادارے نئی تجاویز کے ساتھ صنعت کی بحالی کے لیے کام کر رہے ہیں۔
وقت کی ضرورت ہے کہ صنعت کو اس کی مندی سے نکالنے کے لئے ایک ایکشن پلان پر بھرپور طریقے سے عمل کیا جائے۔ پیچیدہ مسائل کو ہمیشہ پیچیدہ حل کی ضرورت نہیں ہوتی ہے۔ آسان لیکن مستقل حل مدد کر سکتے ہیں۔ اسٹیک ہولڈرز کو اس طرح کے حل تلاش کرنے اور ان پر عمل درآمد کرنے کے لئے مؤثر طریقے سے تعاون کرنے کی ضرورت ہے۔
مقامی طور پر حل تلاش کرنے کے لئے ضروری تحقیق اور مہارت فراہم کرنے میں اکیڈیمیا ایک اہم کردار ادا کرتا ہے۔ حکومت کو آٹوموٹو سیکٹر، خاص طور پر برقی نقل و حرکت میں تحقیق کرنے کے لئے منتخب انجینئرنگ اداروں کے لئے ایک واضح روڈ میپ فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔ بیٹری ٹیکنالوجی، کنٹرول سسٹم، اور سولر انرجی پر مبنی ہائبرڈ چارجنگ اسٹیشنوں جیسے شعبوں میں تحقیق کی حوصلہ افزائی کیلئے کافی فنڈز اور وسائل مختص کیے جانے چاہئیں.
اس کے علاوہ حکومت کو ایسی پالیسیز تیار کرنی چاہیے جو غیر ملکی براہِ راست سرمایہ کاری کو متوجہ کریں، بغیر اس کے کہ موجودہ مارکیٹ کھلاڑیوں کی غیر ضروری طور پر حفاظت کی جائے، جنہوں نے گزشتہ چار سے پانچ دہائیوں میں توقعات کے مطابق کارکردگی نہیں دکھائی۔ صنعت کو مارکیٹ کی طلب کو پورا کرنے کے لیے دو اور تین پہیوں والی گاڑیوں اور چھوٹی گاڑیوں پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے۔
کاروباری برادریوں اور چیمبرز کو عالمی منڈیوں اور برآمدی رجحان کی اہمیت سے آگاہ، چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباری اداروں (ایس ایم ایز) کی حوصلہ افزائی کرنی چاہئے کہ وہ اہداف مقرر کریں اور آٹوموٹو صنعت میں پائیدار ترقی کے حصول کے لئے ضروری مدد فراہم کریں۔
خواب سچ ہوتے ہیں اگر آپ انہیں حقیقت بنانے کے لئے کافی محنت کرتے ہیں۔ بھارت، ملائیشیا اور تھائی لینڈ ان ممالک کی مثالیں ہیں جنہوں نے اپنی آٹوموٹو صنعتوں (خاص طور پر آٹو پارٹس بنانے والے ایس ایم ایز) کی مدد کے لئے پالیسیوں کو کامیابی سے نافذ کیا ہے اور عالمی مارکیٹ میں بڑے کھلاڑی بننے کے اپنے خوابوں کو پورا کیا ہے۔ ان کے شہریوں کو بہتر ٹرانسپورٹ کے اختیارات اور روزگار کے مواقع ملے۔
ایک پھلتا پھولتا آٹوموٹو سیکٹر معاشی ترقی اور جدت طرازی کو فروغ دیتا ہے جس سے دیگر صنعتوں میں مثبت اثرات پیدا ہوتے ہیں۔ جب صنعتوں کی ”ماں“ کا احترام کیا جاتا ہے تو پورا معاشی ”خاندان“ فائدہ اٹھاتا ہے اور پھلتا پھولتا ہے۔ خواب زیادہ قابل حصول ہو جاتے ہیں اور تعلقات مضبوط ہوتے ہیں۔ میری خواہش اور امید ہے کہ کسی دن جب میرا بیٹا بیدار ہوگا تو اسے ایسی سڑکیں ملیں جس کا میں نے خواب دیکھا ہے۔