اے پی پی ایم اے کی کے الیکٹرک کے 68 ارب روپے کے کلیمز کی منظوری کی مخالفت

22 نومبر 2024

آل پاکستان پروسیسنگ ملز ایسوسی ایشن (اے پی پی ایم اے) نے کے الیکٹرک کے 68 ارب روپے کے کلیمز کی منظوری کی شدید مخالفت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کا کوئی جواز نہیں ہے۔

اے پی پی ایم اے کے چیئرمین انور عزیز نے نیپرا کو لکھے گئے خط میں کہا ہے کہ کے الیکٹرک کی 28 نومبر 2024 کو زیر سماعت درخواست مسترد کی جائے کیونکہ کراچی کے صارفین پہلے ہی پاکستان میں سب سے زیادہ بجلی کی قیمت ادا کررہے ہیں۔

انور عزیز نے مزید کہا کہ ان قرضوں سے مالی دباؤ بڑھے گا اور عوام کا اعتماد مزید مجروح ہوگا، کے الیکٹرک کراچی کے صارفین کو 33 ارب روپے کی کووڈ سبسڈی جاری کرنے میں ناکام رہا ہے۔

ایسوسی ایشن نے دلیل دی کہ جب تک کووڈ کی مدت کی سبسڈی کا مسئلہ حل نہیں ہوجاتا، کے الیکٹرک کی جانب سے کسی بھی اضافی دعوے پر غور نہیں کیا جانا چاہئے۔

انہوں نے کہا کہ یہ حیرت کی بات ہے کہ کے الیکٹرک ان صارفین کے شناختی کارڈ بھی فراہم نہیں کر سکا جن کے لیے واجبات معاف کیے گئے۔ یہ نیپرا کے کنزیومر سروس مینوئل کی صریح خلاف ورزی ہے اور اس سے سنگین سوالات اٹھتے ہیں کہ کیا یہ سبسڈیز اور رائٹ آف نامعلوم یا غیر موجود اداروں کو دی گئیں؟

اے پی پی ایم اے کا مطالبہ ہے کہ کے الیکٹرک کے واجبات معاف کرنے کی درخواست کو مکمل طور پر مسترد کیا جائے کیونکہ یہ دعوے کسی جواز اور شفافیت سے عاری ہیں۔ نیپرا کو صارفین کو اضافی مالی بوجھ سے محفوظ رکھنا چاہیے۔ انہوں نے مزید کہا، ”صارفین کے بلوں یا حکومتی سبسڈی کے ذریعے ایک پیسہ بھی ادا نہیں ہونا چاہیے۔“

ایسوسی ایشن نے مطالبہ کیا ہے کہ کے الیکٹرک کے دعووں سے 33 ارب روپے کی کووڈ سبسڈی کاٹ کر براہ راست کراچی کے صنعتی اور تجارتی صارفین کو جمع کرائی جائے۔ نیپرا کو کے الیکٹرک کو اس کی آپریشنل نااہلیوں پر جوابدہ بنانا چاہیے اور یوٹیلیٹی سے مطالبہ کرنا چاہیے کہ وہ صارفین کو جرمانے کرنے کے بجائے اس کی ریکوری میکانزم پر توجہ دے۔

انور عزیز کا کہنا ہے کہ کراچی کے رہائشی اور صنعتیں مزید مالی دباؤ برداشت نہیں کر سکتیں۔ نیپرا اس بات کو یقینی بنائے کہ ان دعووں کو مزید سرچارج یا ٹیرف ایڈجسٹمنٹ میں تبدیل نہ کیا جائے۔ کراچی کے صارفین پہلے ہی پاکستان میں بجلی کے سب سے زیادہ بل ادا کررہے ہیں، ان قرضوں کی منظوری سے اس مالی دباؤ میں مزید اضافہ ہوگا اور عوام کا اعتماد مزید خراب ہوگا۔

کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر، 2024

Read Comments